لاہور سے خواتین امیدوار

لاہور:(شیراز حسنات سے)

ہم کسی سے نہیں کم،،،پاکستان میں دوسرے شعبوں کی طرح سیاست میں بھی صنف نازک آگے آنے لگیں،دوہزاراٹھارہ کے الیکشن میں کئی خواتین جنرل سیٹوں پربھی میدان میں اتریں ہیں.پاکستانی خواتین ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں،،اب سیاست میں بھی خواتین کی نمائندگی بڑھنے لگی ہے،ماضی میں یہ تعداد انتہائی کم تھی ،لاہور میں دوہزار دوسےاب تک صرف تین خواتین بیگم کلثوم نواز،ثمینہ خالد گھرکی اورشازیہ مبشرہی جنرل سیٹ پرانتخاب لڑ کر ایوان تک پہنچ پائیں۔ الیکشن قوانین کے تحت سیاسی جماعتیں اپنے جاری کردہ مجموعی ٹکٹوں کا پانچ فیصد حصہ خواتین کو دینے کی پابند ہیں اور اگر ایسا نہیں کرتے ہیں تو انکی جماعت کی رجسٹریشن کینسل ہو سکتی ہے۔

دوہزاراٹھارہ کے الیکشن میں لاہو رکے قومی اسمبلی کے چودہ حلقوں میں بارہ خواتین بھی عام سیٹ پرقسمت آزمائی کررہی ہیں،ان میں آٹھ پارٹیوں کے ٹکٹ اور چار آزادانہ الیکشن لڑیں گی۔

پاکستان تحریک انصاف نے صرف ایک خاتون امیدوار یاسمین راشد کو این اے 125 سے ٹکٹ جاری کیاجبکہ جماعت اسلامی نے بھی صرف انیلہ محمود کو این اے 134 کی جنرل نشست سےٹکٹ جاری کیا۔تحریک لبیک کی سمیرا نورین این اے 124 سے اور میمونہ خالد این اے 125 سےامیدوار ہیں،اسی طرح پاک سرزمین پارٹی نے بھی لاہور سے سمیعہ ناز کو این اے 125 سے ٹکٹ جاری کیا ہے۔ آزاد امیدواروں میں این اے 125 سے ریحانہ احمد، این اے 127 سے مسرت جمشید چیمہ، این اے 129 سے فرزانہ بٹ اوراین اے 134سے شازیہ مبشراقبال این اے کی نشستوں پر قسمت آزمائی کریں گی۔ نیشنل پارٹی نے بھی کشور بانو کو این اے 129 سے ٹکٹ جاری کیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ کی زیبا احسان این اے 131 سے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ثمینہ خالد گھرکی این اے132 سے امیدوار ہوں گی۔

مسلم لیگ نواز نے این اے 127 سے اور پی پی 173 سے مریم نواز کو پارٹی ٹکٹ جاری کی تھے مگر احتساب عدالت سے انھیں 8 سال قید ہوئی جسکے باعث وہ نا اہل ہو گئیں اور پارٹی ٹکٹ کسی خاتون امیدوار کی بجائے پارٹی نے مرد امیدواروں کو یہ ٹکٹ جاری کر دیے
لاہور میں صوبائی اسمبلی کی 30 نشستوں پر 15خواتین قسمت آزمائی کر ہی ہیں جن میں 4آزاد جبکہ باقی اپنی پارٹیوں کے انتخابی نشانات پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔

آزاد الیکشن لڑنی والی خواتین میں پی پی 153 سے روبینہ سلہری نور، پی پی 156 سے روبینہ کوثر، پی پی 158سے حناء پرویز بٹ اور پی پی 166سے خدیجہ حسن شامل ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے تین خواتین کو لاہور میں صوبائی اسمبلی کی نشتسوں پر اپنا امیدارو نازمزد کیا جن میں پی پی 144 سے زیب انساء، پی پی 146 سے نوارین سلیم اور پی پی 173 سے روبینہ سہیل بٹ شامل ہیں۔ پاک سر زمین پارٹی نے پی پی 150 سے ماورا کھر جبکہ اللہ اکبر تحریک نے پی پی 149 سے سائرہ بانو اور پی پی 151 سے سیدہ طاہرہ شیرازی کو ٹکٹ جاری کیے۔ تحریک لبیک نے پی پی 164 سے مریم اظہر، ایم ایم اے نے پی پی 167 سے زرافشاں فرحین، آل پاکستان مسلم لیگ نے پی پی 167 سے سمیرا بی بی، نیشنل پارٹی نے پی پی 169 سے نوبا آصف اور عوامی پارٹی پاکستان نے پی پی 171 سے نسرین بی بی کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔

این اے 125سے پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹریاسمین راشد، خواتین کی کم نمائندگی کی وجہ ان کی معاشی مجبوری کو قراردیتی ہیں ڈاکٹر یاسمین راشدکہتی ہیں کہ اس دفعہ ٹرینڈ بدلا ہے،،بہت سی خواتین عام نشست پر آئی ہیں،،لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ معاشی طور پر خواتین مردوں پر منحصر ہوتی ہیں اور خود سے سپورٹ نہیں کر پاتیں الیکشن میں اتنا پیسہ لگانے کو اور ایسی صورت میں گھر یا خاندان سپورٹ نہ کرے تو کیسے الیکشن لڑے گی

این اے 134 سے متحدہ مجلس عمل کی امیدوار انیلہ محمود کہتی ہیں کہ انھیں اپنی جیت ک ایقین ہے اور انکے خاوند اور دیگر اہلخانہ بھی الیکیشن کمپین میں انکی مدد کر رہے ہیںاور وہجہاں بھی جاتی ہیں لوگ انکو بطور خاتون ایک اچھا رسپونس دیتے ہیں اور انکی بات توجہ سے سنتے ہیں۔

شہری کہتے ہیں کہ موجودہ دورمیں صنف کی اہمیت نہیں ،معاشرہ باشعورہوچکا ،اب امیدوار کا مضبوط ہونا ضروری ہے عوام کہتے ہیں کہ وہ زمانہ گیا جب خواتین کو ووٹ دینے سے گریز کیا جاتا تھا اب عوام با شعور ہیں ،وہ صنف نازک کو اہمیت بھی دیتے ہیں اور ذمہ دار بھی سمجھتے ہیں

محمد خرم شہری کہتے ہیں کہ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے لوگ خواتین کو بھی ووٹ دیتے ہیں اور وہ جیتتی بھی ہں لیکن ہاں پہلے کم تھا خواتین کا ایسے سامنے آنا اب تھوڑا زیادہ ہو گیا ہےایک اور شہری امہ کلثوم کہتی ہیں اب سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگ کافی باشعور ہو گئے ہیں اب فرق نہیں پڑتا کہ خاتوں ہے امیدوار یامرد،،لوگ ووٹ دیں گے