انتخابات میں جیپ کی اہمیت بڑھ گئ

لاہور:(شیراز حسنات سے)

اس وقت ملک بھر میں جیب کا انتخابی نشان موضوع بحث بنا ہو ا ہے۔ جب سے مسلم لیگ نواز کے منحرف رہنما چوہدری نثار نے بطور آزاد امیدوار جیب کا انتخابی نشان لیا اس کو الیکشن کمیشن سے الاٹ کروانے والوں کی تعداد یکدم سے بڑھ گئی اور یہ نشان میڈیا میں زیر بحث آ گیا۔ عام تاثر یہی لیا گیا کہ جو بھی امیدوار جیب کے انتخابی نشان پر سوار ہو کر الیکشن ریس میں حصہ لے گا وہ شاید آسانی سے جیت جائے اور تو اور مسلم لیگ نواز سے منحرف دیگر رہنماوں اور ٹکٹ نا ملنے والوں کی اکثریت نے بھی اسی نشان کو ترجیح دی اور مید تثار یہ ملنے لگ گیا کہ شاید جیت کے بعد یہجیب پر سوار سارا ہم خیال گروپ ایک ہو جائے گا اور مسلم لیگ نواز کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں نے تو جیب کے نشان کو اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ طور پر حمایت یافتہ امیدوراوں کا نشان بھی قرار دے دیا اور اسکو پاکستان آرمی کی جیب کہا جانے لگا جسے پاک فوج کے ترجمان نے باقاعدہ طور پر پریس کانفرنس میں تردید کی تھی اور یہ کہا پاک آرمی کی جیب کا رنگ یہ نہیں ہے۔ اور تو اور جب جیب کے نشان کی مانگ بڑھی تو چوہدری نثار کو بھی اسکی وضاحت کرنے پڑ گئی کہ انھوں نے کوئی ہم خیال گروپ نہیں بنا رکھا اور یہ نشان انھوں نے خود اپی مرضی سے لیا تھا اور نا ہی انھوں نے کسی اور کو یہ نشان لینے کا کہا اور نا ہی انھوں نے کوئی الگ گروپ بنایا ہے اور ان سب باتوں کو مفروضہ قرار دیا۔ متعدد جگہوں سے ایسی اطلاعات بھی آئیں کہ جیب کے انتخابی نشان کو الاٹ کروانے کیلیے کچھ حلقوں میں ایک سے زائد امیدواروں نے ریٹرنگ افسران کو درخواستیں دیں اور اسی صورت میں ٹاس کرکے ایک کو جیب اور دوسرے کو کچھ اور نشان الٹ کیے گئے۔ ان میں لاہور کا حلقہ این اے 132 بھی شامل ہے جیاں ٹاس کرنا پڑ گیا۔۔۔۔ قسمت کی دیوی محمد رمضان پر مہربان رہی جواب جیپ کا نشان پر ووٹروں کو رام کریں گے۔

لاہورمیں قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 30 سیٹوں پر متعدد حلقوں کے امیدوراوں نے جیب کا نشان الٹ کروایا، اس میں قومی اسمبلی کے پانچ جبکہ صوبائی اسمبلی کے چھبیس امیدواروں نے جیپ کے نشان الاٹ کروایا۔
صوبائی دارلحکومت میں قومی اورصوباٰئی حلقوں میں 32 امیدواراسی نشان پر میدان میں اتریں گے لاہور سے ن لیگ کے باغی رہنما زعیم قادری این اے 125 اور تجمل حسین کااین اے 129 میں انتخابی نشان جیپ ہی ہوگاجبکہ بقیہ امیداروں میں این اے 128 سے محمد ناظم، این اے 131 سے ندیم احمد، این اے 132 سےمحمد رمضان اور این اے 136 سے سردار کامل عمر شامل ہیں۔

صوبائی اسمبلی کے 30 حلقوں میں 26 امیدواروں کوجیپ کا نشان بھایا۔ صوبائی اسمبلی کےحلقہ پی پی 144 میں آزاد امیدوار محمد نوید پی پی 145 میں انعام اللہ خان پی پی 146 سے میاں سلمان شعیب پی پی 148سے علی عدنان پی پی 149 میں آجاسم شریف پی پی 150 محمد اکرم 151 سےحیدر عباس 152 سے سعید احمد خان 153 سے علاوالدین ۔154 سے محمد وحید گل 155سے میاں عابد علی 156 سے محمد زبیر 157سے سکندر علی شاہ 158 سےمیاں سلیم رضا 159 سے میاں نیم میر 160 سے سعد فرخ 161 سے علی عرفان 162 سے معراج حسین 163 سے اشرف مسیح 164سے غلام محمد 165 سے ناصر جاوید ڈوگر 166 سے محمد ادریس 168 سے محمد شہباز 171 سے رانا بختیار احمد 172سے شہزاد نذیر جیپ کے نشان پر انتخابات لڑیں گے۔

جیب کے نشان پر انتخاب لڑنے والے امیدوار اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں کچھ کے مطابق الیکشن کمیشن نے جب امیدوار کو اس سلسلے میں قانونی طور پر یہ حق دیا ہے تو وہ کیوں نا اس سے فائدہ اٹھائیں اور جیب ایک چھا نشان ہے اس لیے انھوں نے اس کو ترجیح بنیادوں پر لینے کا فیصلہ کیا۔ کچھ امیدوارں کے مطابق انتخابی مہم عام طور پر جیپوں پر ہی کی جاتی ہے لہذا انھوں نے اس نشان کو اسی لیے لینے کو ترجیح دی۔مسلم لیگ نواز سے منحرف ایک امیدوار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ چونکہ چوہدری نثار یہ نشان لیا تو اسی لیے باقی منحرف رہنماوں نے بھی اسی نشان کو ترجیح دی تاکہ مستقبل میں کامیاب ہونے والےآزاد امیدواروں کو ہم خیال گروپ بنانے میں آسانی ہو۔

شہریوں کی جانب سے بھی ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے کچھ کے مطابق جیب والے انتخابی نشان کے حامل امیدواروں کا تعقلق یا تو مسلم لیگ نواز کے منحرف حلقوں سے ہے یا انھیں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے۔ کچھ شہریوں کے مطابق اس نشان کے حامل امیدواروں کو اس سے فائدہ بھی ہو گا اور نقصن بھی جبکہ کچھ شہریوں نے جیب کے نشان کو عام انتخابی نشان قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقابل صرف پارٹیوں کے انتخابی نشان رکھنے والے امیدورں میں ہے اور یہ صرف قیاس آریائیاں ہیں۔