فیصل آباد کے انتخابی معرکے
فیصل آباد:(میاں انجم سے)
فیصل آبادپاکستان کا تیسرا جبکہ پنجاب کا دوسرابڑا شہر ہے ۔فیصل آباد کی وجہ شہرت صنعت انڈسٹری ہے جو اسے مانچسٹر آف پاکستان کہلوانے کی بھی ایک بڑی وجہ ہے ۔رقبے کے لحاظ سے فیصل آباد 5,856 کلو میٹر سیکوئر پر محیط ہے ۔2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق فیصل آباد ضلع کی مکمل آبادی 7873910 ہے جس میں سے 4113582 حصہ پر شہری آبادی جبکہ حصہ 3760328 پر دیہی آبادی مقیم ہے ۔مکمل آبادی میں خواجہ سراوں کی تعداد 541 ہے ۔
عام انتخابات میں فیصل آباد کی قلیدی کردار ہمیشہ سے رہا ہے ،اسی شہر کے نصیب میں وزارتیں بھی آتی رہیں ہیں ۔2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے امیدوار قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے عوام نے چنے مگر 2013 کے انتخابات میں تو پھانسہ ہی پلٹ گیا قومی اسمبلی کی عام انتخابات میں 10 نشتیں ن لیگ کے حصے میں آئیں جبکہ صوبائی اسمبلی 21 نشتوں میں سے ایک سیٹ پاکستان تحریک انصاف نے جیتی ۔فیصل آباد سے عابد شیر علی ،رانا افضل سمیت اکرم انصاری وزیر مملکت کے عہدوں پر فائز رہے جبکہ صوبائی سطح پر وزیر قانون پنجاب کا قلم دان رانا ثناء کے پاس رہا ۔ترقیاتی کاموں کے حوالوں سے بات کی جائے تو نون لیگ کے 5 سالہ دور میں سٹی کو کافی ترقیاتی منصوبے ملے ۔جنرل اسپتال سمن آباد ،ایشیاء کا سب سے بڑا چلڈرن اسپتال ، جھال پل فلائی اوور ،عبد اللہ پور انڈر پاس اور شہر سے موٹروے کو ملانے کے لیے دو رویہ ایکسپریس وے بڑے ترقیاتی کام سمجھے جاتے ہیں ۔
2017 میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر میاں نواز شریف کی نااہلی پر پہلے پہر لیگی کارکنان اور رہنماوّں میں شدید غم و غصہ پایا گیا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ لیگی رہنماوں نے پارٹی کی گِرتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پارٹی سے کنارہ کشی شروع کردی۔ اور فیصل آباد جس کو پاکستان مسلم لیگ ن کا قلعہ کہا جاتا تھا اور اسی قلعے سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے دیرینہ ساتھی مسلم لیگ ن کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے کھلاڑی بن گئے۔ فیصل آباد کے نواحی علاقے جھمرہ، ساہیانوالہ سے تعلق رکھنے والی دیرینہ لیگی ساتھی افصل ساہی، مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے 2013 میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے والے ڈاکٹر نثار جٹ اور مسلم ن کا ہی جھنڈا تھامے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے رضا نصراللہ گھمن کے کھلاڑی بننے سے مسلم لیگ ن کو خاصہ دھجکا لگا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سےنئی حلقہ بندیاں 2018 بنائی گئیں تو قومی اسمبلی حلقہ نمبر 101 سے لیکر 110 تک جبکہ صوبائی حلقے 97 سے لیکر 117 تک دیے گئے ۔حلقہ بندیوں کے بعد عام انتخابات کی باری آئی تو دو بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے درمیان امیدواروں کے لیے ٹکٹس تقسیم کرنا بڑا امتحان تھا ۔نون لیگ اور پی ٹی آئی کی جانب سے تقریباء ہر حلقے سے کئی امیدوار سامنے آئے ۔ٹکٹ کے حصول کے لیے امیدواروں نے اپنی اپنی جماعتوں کودرخواستیں دیں ۔یوں تو پیپلز پارٹی سمیت تحریک لببیک اسلام ،آل پاکستان مسلم لیگ ،متحدہ مجلس عمل ، پاکستان مسلم لیگ ،تحریک لببیک پاکستان سمیت جماعتیں الیکشن میں حصہ لے رہیں ہیں ۔لیکن فیصل آباد میں حالیہ انتخابات میں دو بڑی پارٹیاں تصور کی جاتیں ہیں جن میں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف شامل ہے ۔دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کے لیے ٹکٹ کی تقسیم بڑا امتحان تھا ۔
ٹکٹس کی تقسیم کا اعلان ہوا تو نون لیگ اور پی ٹی آئی اپنے اپنے پتے سامنے لائی جس میں قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 101 سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حال ہی میں مسلم لیگ نون سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے ساہی خاندان کو میدان میں اتارا گیا ۔سابقہ ایم این اے کرنل ر غلام رسول کے بیٹے سابقہ ایم پی اے ظفر ذوالقرنین کواین اے 101 سےٹکٹ ملی جن کے مد مقابل ن لیگ نے کوہستانی خاندان کے نام سے مشہور چئیرمین ضلع کونسل زاہد نذیر کے بھائی سابق ایم این اے عاصم نذیر کو این اے 101 سے ٹکٹ کا اعلان کیا تو کوہستانی خاندان کی جانب سے این اے 105 میں زاہد نذیر کے بیٹے کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ رکھا گیا ۔لیکن قیادت نے یہ فیصلہ نہیں مانا جس پر این اے 101 سے عاصم نذیر آزاد حثیت سے الیکشن میں اترے مگر نون لیگ انکے مقابلے میں امیدوار نہیں لائی بلکہ انکی حمایت کا اعلان کیا گیا ۔قومی اسمبلی کے حلقے 101 کے نیچے صوبائی اسمبلی کے مکمل دو حلقے جبکہ تیسرے حلقے کا آدھا حصہ این اے 101 میں جبکہ باقیہ آدھا 102 میں آتا ہے ۔این اے 101 کے نیچے صوبائی حلقہ نمبر 97 میں سے سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی افضل ساہی کے بیٹے پی ٹی آئی کے امیدوار وار ہیں جبکہ ن لیگی کے ہی سابق ایم اپی اے آزاد علی تبسم انکے مد مقابل ہیں ۔پی پی 98 میں سابق ایم پی اے اور ق لیگ کے دور میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر رہنے والے افضل ساہی پی ٹی ائی کی جانب سے خود میدان میں ہیں جبکہ انکے مد مقابل سابق ایم پی اے شعیب ادریس ہیں ۔پی پی 99 کی بات کریں تو اس صوبائی اسمبلی کے حلقے کا کچھ حصہ این اے 101 اور کچھ 102 میں آتا ہے ۔اس صوبائی اسمبلی کے حلقے میں ق لیگ سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے علی اختر اور نون لیگ کے علی اکبر کے درمیان جوڑ پڑے گا ۔این اے 102 اس علاقے کا حلقہ ہے جس میں 2013 کے الیکشن میں سابق وزیر اعظم نے نون لیگ کے میدوار کی جیت پر جڑانوالہ کو ضلع بنانے کا وعدہ کیا تھا ۔لیکن وہ وعدہ وفا نہ ہوا ۔جہاں سے 2013 میں طلال بدر چوہدری ایم این اے منتخب ہوئے تھے جو کہ وزیر مملکت برائے داخلہ بھی رہے ۔اب 2018 میں انکا کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے دور میں ایم این اے رہنے والے نواب شیر وسیر سے ہے جو کہ اب پی ٹی آئی میں شام ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔اسی حلقے میں صوبائی حلقہ نمبر 100 سے ق لیگ کے دور میں صوبائی وزیر مواصلات رہنے والے چوہدری ظہیر الدین جو کہ 2013 کے الیکشن میں صوبائی و قومی اسمبلے کے امیدوار تھے لیکن ہار انکا مقدر بنی تھی ۔انہوں نے رواں سال پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور اب پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کی نشت پر حصہ لے رہے ہیں انکے مد مقابل نون لیگ کی جانب سےسابقہ ایم پی اے عفت معراج اعوان نون لیگ کی جانب سے میدان میں ہیں ۔جبکہ پی پی 101 سے سابقہ ایم پی اے رائے حیدر علی خان نون لیگ کی جانب سے امیدوار ہیں جبکہ انکے مد مقابل پی ٹی آئی کے غلام حیدر باری ہیں ۔حلقہ این اے 103 جس میں ن لیگ کی جانب سے علی گوہر خان بلوچ جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے سعداللہ امیدوار تھے ۔تاہم آزاد امیدوار محمد احمد کی جانب سے خودکشی کیے جانے پر این اے 103 اور پی پی 103 میں الیکشن ملتوی کر دیے گئے ہیں ۔اسی حلقے کے نیچے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 102 میں سے سکندر حیات نون لیگ اور عادل پرویز پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں ۔این اے 104 میں سے رانا محمد فاروق خان جوکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں اور سابق وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں جبکہ سابق ایم این اے شہباز بابر نون لیگ اور دلدار چیمہ پی ٹی آئی کی طرف سے میدان میں ہونگے ۔جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 104 سے نون لیگ کے صفدر شاکر اور پی ٹی آئی کے شاہد خلیل نور مد مقابل ہونگے اور پی پی 105 میں سے سابقہ ایم پی اے کاشف رحیم نون لیگ اور پی ٹی آئی کے ممتاز احمد میدان میں ہونگے ۔پی ٹی آَئی کی جانب سے حال ہی میں سابقہ ایم پی اے رضا نصراللہ گھمن قومی اسمبلی کے حلقے این اے 105 سے پارٹی ٹکٹ کے خواہاں تھے ۔مگر انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا جس پر انہوں نے آزاد حثیت سے انتخابی مقابلے میں اترنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔ایسے میں دلچسپ صورتحال تب بنی جب پی ٹی آئی کے ٹکٹ یافتہ امیدوار آصف توصیف کو ایپلٹ ٹریبونل نے اثاثے چھپانے پر نا اہل قرار دیا تو رضا نصراللہ گھمن کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ دے کر بلا کے نشان دلوا دیا جبکہ آصف توصیف کو نظر ثانی اپیل میں بحال کر دیا گیا لیکن وہ الیکشن کے عمل سے باہر ہوگے اسطرح اب پی ٹی آئی کے امیدوار رضا نصر اللہ گھمن کے مقابلے میں ن لیگ کے سابق ایم این اے میاں محمد فاروق ہیں ۔جبکہ اسی حلقے کے نیچے صوبائی اسمبلی کی نشت پی پی 106 میں سے ن لیگ کے خالد پرویز جبکہ پی ٹی آئی کے سردار دل نواز احمد چیمہ مد مقابل ہونگے جبکہ پی پی 107 سے پی ٹی آئی کے خالد رفیع اور ن لیگ سے شفیق احمد مد مقابل ہیں ۔قومی اسمبلی کی نشت این اے 106 میں صورتحال کچھ یوں ہے کہ 2013 میں ن لیگ کی سیٹ سے منتخب ہونے والے ڈاکٹر نثار جٹ استفی دیکر پی ٹی آئی مین شامل ہوئے تو انہیں این اے 106 سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ دیا گیا جن کے مد مقابل دوبار وزیر قانون پنجاب رہنے والے رانا ثناء اللہ پہلی بار قومی اسمبلی کی نشت پر میدان میں اترے ہیں جبکہ صوبائی نشت پی پی 113 سے بھی میدان میں ہیں ۔این اے 106 کے نیچے صوبائی اسمبلی کی نشت پی پی 108 سے پی ٹی آئی کے آفتاب احمد خان اور ن لیگ کے سابق ایم پی اے محمد اجمل مد مقابل ہیں جبکہ پی پی 109 میں سے ن لیگ کے سابق ایم پی اے ظفر اقبال ناگرہ اور پی ٹی آئی کے ندیم آفتاب سندھو انتخابی اکھاڑے میں ہیں ۔این اے 107 میں ن لیگ کے اکرم انصاری جو کہ اسی حلقے سے 5 بار قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں وہ میدان میں ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے ٹکٹ 2013 میں ضمنی انتخاب میں اکلوتے منتخب ہونے والے سابق رکن صوبائی اسمبلی شیخ خرم شہزاد کو دی گئی ہے ۔ جس پر پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں کی جانب سے کافی ردعمل بھی سامنے آیا تھا ۔اسی حلقے این اے 107 میں سابق وزیر زاہد سرفراز کے بیٹے علی سرفراز اور ممتاز کاہلوں امیدوار تھے لیکن انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔جبکہ اسی حلقے میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ نمبر پی پی 110 میں سے ملک نواز کو ٹکٹ دیا گیا جو کہ مئیر فیصل آباد کے بھائی بھی ہیں اور سابقہ رکن صوبائی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں ۔ملک نواز این اے 110 کے لیے بھی امیدوار تھے لیکن انہیں صرف پی پی 110 کا ٹکٹ دیا گیا جبکہ انکے مقابلے میں پی ٹی آئی کے خیال احمد ہیں ۔پی پی 111 میں سابق ایم پی خواجہ اسلام احمد ن لیگ کی ٹکٹ کے لیے پر امید تھے لیکن سابق وزیر اعظم نواز شریف کی خواہش پر ٹکٹ فاروق خان کے بھتیجے اسرار احمد منے خان کو دیا گیا جس پر سابقہ ایم پی اے خواجہ اسلام نے آزاد امیدوار کی اہمیت سے بالٹی کے نشان پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا جبکہ پی ٹی آئی میں بھی صورتحال مختلف نہ رہی ۔2013 میں صوبائی اسمبلی کی نشت پر پنجاب بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے نجم الحسین طوطے کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ نہ دی جبکہ حال میں ہی پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے شکیل شاہد کو ٹکٹ دے دیا گیا جس پر نجم الحسین طوطے نے انتخابی نشان طوطے پر آزاد حثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔این اے 108 میں میں سابقہ رکن قومی و صوبائی اسمبلی سمیت مئیر فیصل آباد رہنے والے شیر علی جو کہ سابق وزیر اعظم کے رشتہ دار بھی ہیں انکے بیٹے جو کہ تین دفعہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور وفاقی وزیر مملکت بھی رہ چکے وہ میدان میں ہیں جبکہ انکے مقابلے میں پی ٹی آئی کے فرخ حبیب ہیں جو کہ 2013 میں عابد شیر علی سے شکست کھا چکے ہیں ۔اسی حلقے میں صوبائی حلقوں پر جس میں پی پی 112 سے ن لیگ کے محمد طاہر پرویز اور پی ٹی آئی کے عدنان اختر میدان میں ہیں جبکہ پی پی 113 سے ن لیگ کی جانب سے سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور پی ٹی آئی کے میاں وارث عزیز مد مقابل ہیں ۔این اے 109 میں میاں عبد المنان جو کہ سابق ایم این اے ہیں انہیں ٹکٹ دینے پر مخالفت تو خوب ہوئی پھر ن لیگی قیادت نے فیصلہ کرتے ہوئے انہیں ٹکٹ دیا وہ 2013 کے ضمنی انتخاب میں بڑے توڑے ووٹوں سے جیتے تھے ۔این اے 109 میں انکے مد مقابل پی ٹی آئی کے فیض اللہ کموکا ہیں جہاں کانٹے کا مقابلہ متواقع ہے ۔اسی حلقے پر پی پی کے حلقہ نمبر 114 کی بات کی جائے تو کارکنوں کی مخالفت کے باوجود ن لیگ نے سابقہ ایم پی اے شیخ اعجاز کو ٹکٹ دیا جن کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے محمد لطیف نذر ہیں جبکہ پی پی 115 سے پہلی بار الیکشن میں حصہ لینے والے ن لیگ کے رانا علی عباس جبکہ پی ٹی آئی کے اسد معظم میدان میں ہیں ۔این اے 110 میں رانا افضل کی مخالفت تو بہت کی گئی لیکن پارٹی نے انہیں ٹکٹ دیا تو انکے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے دور میں اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی رہنے والے جو کہ بعد ازاں پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے انہیں ٹکٹ دیا گیا ۔اسی حلقہ میں پی پی 116 سابق ایم پی فقیر حسین ڈوگر کو ن لیگ جبکہ محبوب عالم سندھو پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں جبکہ پی پی 117 میں سے ن لیگ نے حامد رشید اور پی ٹی آئی نے حسن مسعود کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا ہے ۔
البتہ رواں سال میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو سزا دئیے جانے اور نواز شریف کی جانب سے اپنی اہلیہ کی بیماری کے باوجود خود کو نیب کے حوالہ کردینے پر دوبارہ سے مسلم لیگ ن کا گرتا ہوا گراف اوپر آیا اور دوبارہ سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے رونگٹے کھڑے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ جس کی ایک مثال چند روز قبل فیصل آباد کی دھوبی گھاٹ گراوّنڈ میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کئے جانے والے جلسے میں شریک کارکنان کی تعداد ہے۔ ایک ہی دن میں عمران خان کی جانب سے ڈویژن فیصل آباد کے دو ضلعوں میں پنڈال سجایا گیا اور دونوں ہی پاور شوء بُری طرح سے ناکامی کا شکار بنے۔ جبکہ 20 جولائی کو پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے ستیانہ روڈ سیلمی چوک میں کئے جانے والے پاور شوء میں بڑی تعداد میں لیگی کارکنان پہنچ گئے۔ اور مسلم لیگ ن کے اس پاور شوء کی قابل ذکر بات یہ رہی کہ میاں شہباز شریف اپنے بتائے ہوئے ٹائم سے پورے آٹھ گھنٹے تاخیر سے جلسہ گاہ میں پہنچے لیکن اس کے باوجود کارکنان اپنے قائد کے انتظار میں جلسہ گاہ میں براجمان رہے۔مقبولیت کے گراف کی بات کریں تو پی ٹی آئی اور ن لیگ کے امیدواروں میں سے مقبول امیدوار ن لیگ کے ہیں جبکہ ان دونوں جماعتوں کے امیدواروں کے درمیان ہر حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے ۔جبکہ فیصل آباد کے ووٹرز اس الیکشن پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں کچھ تو تبدیلی کے خواہاں ہونے کے نعرے ساتھ پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہے ہیں جبکہ کچھ تو نون لیگ کو ہی دوبارہ آزمانہ چاہتے ہیں