Newsroom (Urdu) – Reporting Elections Pakistan https://reportingelections.org Covering Pakistan General Election 2018 Wed, 25 Jul 2018 02:34:16 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=4.9.18 https://i0.wp.com/reportingelections.org/wp-content/uploads/2017/06/cropped-RE-Banner-Revised-2.jpg?fit=32%2C32&ssl=1 Newsroom (Urdu) – Reporting Elections Pakistan https://reportingelections.org 32 32 145858212 فیصل آباد کے انتخابی معرکے https://reportingelections.org/2018/07/election-achivments-of-faisalabad/ Sat, 21 Jul 2018 09:29:26 +0000 https://reportingelections.org/?p=519
CLICK HERE FOR ENGLISH VERSION

فیصل آباد کے انتخابی معرکے

فیصل آباد:(میاں انجم سے)

فیصل آبادپاکستان کا تیسرا جبکہ پنجاب کا دوسرابڑا شہر ہے ۔فیصل آباد کی وجہ شہرت صنعت انڈسٹری ہے جو اسے مانچسٹر آف پاکستان کہلوانے کی بھی ایک بڑی وجہ ہے ۔رقبے کے لحاظ سے فیصل آباد 5,856 کلو میٹر سیکوئر پر محیط ہے ۔2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق فیصل آباد ضلع کی مکمل آبادی 7873910 ہے جس میں سے 4113582 حصہ پر شہری آبادی جبکہ حصہ 3760328 پر دیہی آبادی مقیم ہے ۔مکمل آبادی میں خواجہ سراوں کی تعداد 541 ہے ۔
عام انتخابات میں فیصل آباد کی قلیدی کردار ہمیشہ سے رہا ہے ،اسی شہر کے نصیب میں وزارتیں بھی آتی رہیں ہیں ۔2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے امیدوار قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے عوام نے چنے مگر 2013 کے انتخابات میں تو پھانسہ ہی پلٹ گیا قومی اسمبلی کی عام انتخابات میں 10 نشتیں ن لیگ کے حصے میں آئیں جبکہ صوبائی اسمبلی 21 نشتوں میں سے ایک سیٹ پاکستان تحریک انصاف نے جیتی ۔فیصل آباد سے عابد شیر علی ،رانا افضل سمیت اکرم انصاری وزیر مملکت کے عہدوں پر فائز رہے جبکہ صوبائی سطح پر وزیر قانون پنجاب کا قلم دان رانا ثناء کے پاس رہا ۔ترقیاتی کاموں کے حوالوں سے بات کی جائے تو نون لیگ کے 5 سالہ دور میں سٹی کو کافی ترقیاتی منصوبے ملے ۔جنرل اسپتال سمن آباد ،ایشیاء کا سب سے بڑا چلڈرن اسپتال ، جھال پل فلائی اوور ،عبد اللہ پور انڈر پاس اور شہر سے موٹروے کو ملانے کے لیے دو رویہ ایکسپریس وے بڑے ترقیاتی کام سمجھے جاتے ہیں ۔
2017 میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر میاں نواز شریف کی نااہلی پر پہلے پہر لیگی کارکنان اور رہنماوّں میں شدید غم و غصہ پایا گیا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ لیگی رہنماوں نے پارٹی کی گِرتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پارٹی سے کنارہ کشی شروع کردی۔ اور فیصل آباد جس کو پاکستان مسلم لیگ ن کا قلعہ کہا جاتا تھا اور اسی قلعے سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے دیرینہ ساتھی مسلم لیگ ن کو خیر باد کہتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے کھلاڑی بن گئے۔ فیصل آباد کے نواحی علاقے جھمرہ، ساہیانوالہ سے تعلق رکھنے والی دیرینہ لیگی ساتھی افصل ساہی، مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے 2013 میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے والے ڈاکٹر نثار جٹ اور مسلم ن کا ہی جھنڈا تھامے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہونے والے رضا نصراللہ گھمن کے کھلاڑی بننے سے مسلم لیگ ن کو خاصہ دھجکا لگا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سےنئی حلقہ بندیاں 2018 بنائی گئیں تو قومی اسمبلی حلقہ نمبر 101 سے لیکر 110 تک جبکہ صوبائی حلقے 97 سے لیکر 117 تک دیے گئے ۔حلقہ بندیوں کے بعد عام انتخابات کی باری آئی تو دو بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے درمیان امیدواروں کے لیے ٹکٹس تقسیم کرنا بڑا امتحان تھا ۔نون لیگ اور پی ٹی آئی کی جانب سے تقریباء ہر حلقے سے کئی امیدوار سامنے آئے ۔ٹکٹ کے حصول کے لیے امیدواروں نے اپنی اپنی جماعتوں کودرخواستیں دیں ۔یوں تو پیپلز پارٹی سمیت تحریک لببیک اسلام ،آل پاکستان مسلم لیگ ،متحدہ مجلس عمل ، پاکستان مسلم لیگ ،تحریک لببیک پاکستان سمیت جماعتیں الیکشن میں حصہ لے رہیں ہیں ۔لیکن فیصل آباد میں حالیہ انتخابات میں دو بڑی پارٹیاں تصور کی جاتیں ہیں جن میں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف شامل ہے ۔دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کے لیے ٹکٹ کی تقسیم بڑا امتحان تھا ۔
ٹکٹس کی تقسیم کا اعلان ہوا تو نون لیگ اور پی ٹی آئی اپنے اپنے پتے سامنے لائی جس میں قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 101 سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حال ہی میں مسلم لیگ نون سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے ساہی خاندان کو میدان میں اتارا گیا ۔سابقہ ایم این اے کرنل ر غلام رسول کے بیٹے سابقہ ایم پی اے ظفر ذوالقرنین کواین اے 101 سےٹکٹ ملی جن کے مد مقابل ن لیگ نے کوہستانی خاندان کے نام سے مشہور چئیرمین ضلع کونسل زاہد نذیر کے بھائی سابق ایم این اے عاصم نذیر کو این اے 101 سے ٹکٹ کا اعلان کیا تو کوہستانی خاندان کی جانب سے این اے 105 میں زاہد نذیر کے بیٹے کو ٹکٹ دینے کا مطالبہ رکھا گیا ۔لیکن قیادت نے یہ فیصلہ نہیں مانا جس پر این اے 101 سے عاصم نذیر آزاد حثیت سے الیکشن میں اترے مگر نون لیگ انکے مقابلے میں امیدوار نہیں لائی بلکہ انکی حمایت کا اعلان کیا گیا ۔قومی اسمبلی کے حلقے 101 کے نیچے صوبائی اسمبلی کے مکمل دو حلقے جبکہ تیسرے حلقے کا آدھا حصہ این اے 101 میں جبکہ باقیہ آدھا 102 میں آتا ہے ۔این اے 101 کے نیچے صوبائی حلقہ نمبر 97 میں سے سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی افضل ساہی کے بیٹے پی ٹی آئی کے امیدوار وار ہیں جبکہ ن لیگی کے ہی سابق ایم اپی اے آزاد علی تبسم انکے مد مقابل ہیں ۔پی پی 98 میں سابق ایم پی اے اور ق لیگ کے دور میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر رہنے والے افضل ساہی پی ٹی ائی کی جانب سے خود میدان میں ہیں جبکہ انکے مد مقابل سابق ایم پی اے شعیب ادریس ہیں ۔پی پی 99 کی بات کریں تو اس صوبائی اسمبلی کے حلقے کا کچھ حصہ این اے 101 اور کچھ 102 میں آتا ہے ۔اس صوبائی اسمبلی کے حلقے میں ق لیگ سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے علی اختر اور نون لیگ کے علی اکبر کے درمیان جوڑ پڑے گا ۔این اے 102 اس علاقے کا حلقہ ہے جس میں 2013 کے الیکشن میں سابق وزیر اعظم نے نون لیگ کے میدوار کی جیت پر جڑانوالہ کو ضلع بنانے کا وعدہ کیا تھا ۔لیکن وہ وعدہ وفا نہ ہوا ۔جہاں سے 2013 میں طلال بدر چوہدری ایم این اے منتخب ہوئے تھے جو کہ وزیر مملکت برائے داخلہ بھی رہے ۔اب 2018 میں انکا کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے دور میں ایم این اے رہنے والے نواب شیر وسیر سے ہے جو کہ اب پی ٹی آئی میں شام ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔اسی حلقے میں صوبائی حلقہ نمبر 100 سے ق لیگ کے دور میں صوبائی وزیر مواصلات رہنے والے چوہدری ظہیر الدین جو کہ 2013 کے الیکشن میں صوبائی و قومی اسمبلے کے امیدوار تھے لیکن ہار انکا مقدر بنی تھی ۔انہوں نے رواں سال پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی اور اب پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کی نشت پر حصہ لے رہے ہیں انکے مد مقابل نون لیگ کی جانب سےسابقہ ایم پی اے عفت معراج اعوان نون لیگ کی جانب سے میدان میں ہیں ۔جبکہ پی پی 101 سے سابقہ ایم پی اے رائے حیدر علی خان نون لیگ کی جانب سے امیدوار ہیں جبکہ انکے مد مقابل پی ٹی آئی کے غلام حیدر باری ہیں ۔حلقہ این اے 103 جس میں ن لیگ کی جانب سے علی گوہر خان بلوچ جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے سعداللہ امیدوار تھے ۔تاہم آزاد امیدوار محمد احمد کی جانب سے خودکشی کیے جانے پر این اے 103 اور پی پی 103 میں الیکشن ملتوی کر دیے گئے ہیں ۔اسی حلقے کے نیچے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 102 میں سے سکندر حیات نون لیگ اور عادل پرویز پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں ۔این اے 104 میں سے رانا محمد فاروق خان جوکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں اور سابق وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں جبکہ سابق ایم این اے شہباز بابر نون لیگ اور دلدار چیمہ پی ٹی آئی کی طرف سے میدان میں ہونگے ۔جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 104 سے نون لیگ کے صفدر شاکر اور پی ٹی آئی کے شاہد خلیل نور مد مقابل ہونگے اور پی پی 105 میں سے سابقہ ایم پی اے کاشف رحیم نون لیگ اور پی ٹی آئی کے ممتاز احمد میدان میں ہونگے ۔پی ٹی آَئی کی جانب سے حال ہی میں سابقہ ایم پی اے رضا نصراللہ گھمن قومی اسمبلی کے حلقے این اے 105 سے پارٹی ٹکٹ کے خواہاں تھے ۔مگر انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا جس پر انہوں نے آزاد حثیت سے انتخابی مقابلے میں اترنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔ایسے میں دلچسپ صورتحال تب بنی جب پی ٹی آئی کے ٹکٹ یافتہ امیدوار آصف توصیف کو ایپلٹ ٹریبونل نے اثاثے چھپانے پر نا اہل قرار دیا تو رضا نصراللہ گھمن کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ دے کر بلا کے نشان دلوا دیا جبکہ آصف توصیف کو نظر ثانی اپیل میں بحال کر دیا گیا لیکن وہ الیکشن کے عمل سے باہر ہوگے اسطرح اب پی ٹی آئی کے امیدوار رضا نصر اللہ گھمن کے مقابلے میں ن لیگ کے سابق ایم این اے میاں محمد فاروق ہیں ۔جبکہ اسی حلقے کے نیچے صوبائی اسمبلی کی نشت پی پی 106 میں سے ن لیگ کے خالد پرویز جبکہ پی ٹی آئی کے سردار دل نواز احمد چیمہ مد مقابل ہونگے جبکہ پی پی 107 سے پی ٹی آئی کے خالد رفیع اور ن لیگ سے شفیق احمد مد مقابل ہیں ۔قومی اسمبلی کی نشت این اے 106 میں صورتحال کچھ یوں ہے کہ 2013 میں ن لیگ کی سیٹ سے منتخب ہونے والے ڈاکٹر نثار جٹ استفی دیکر پی ٹی آئی مین شامل ہوئے تو انہیں این اے 106 سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ دیا گیا جن کے مد مقابل دوبار وزیر قانون پنجاب رہنے والے رانا ثناء اللہ پہلی بار قومی اسمبلی کی نشت پر میدان میں اترے ہیں جبکہ صوبائی نشت پی پی 113 سے بھی میدان میں ہیں ۔این اے 106 کے نیچے صوبائی اسمبلی کی نشت پی پی 108 سے پی ٹی آئی کے آفتاب احمد خان اور ن لیگ کے سابق ایم پی اے محمد اجمل مد مقابل ہیں جبکہ پی پی 109 میں سے ن لیگ کے سابق ایم پی اے ظفر اقبال ناگرہ اور پی ٹی آئی کے ندیم آفتاب سندھو انتخابی اکھاڑے میں ہیں ۔این اے 107 میں ن لیگ کے اکرم انصاری جو کہ اسی حلقے سے 5 بار قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں وہ میدان میں ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے ٹکٹ 2013 میں ضمنی انتخاب میں اکلوتے منتخب ہونے والے سابق رکن صوبائی اسمبلی شیخ خرم شہزاد کو دی گئی ہے ۔ جس پر پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں کی جانب سے کافی ردعمل بھی سامنے آیا تھا ۔اسی حلقے این اے 107 میں سابق وزیر زاہد سرفراز کے بیٹے علی سرفراز اور ممتاز کاہلوں امیدوار تھے لیکن انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔جبکہ اسی حلقے میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ نمبر پی پی 110 میں سے ملک نواز کو ٹکٹ دیا گیا جو کہ مئیر فیصل آباد کے بھائی بھی ہیں اور سابقہ رکن صوبائی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں ۔ملک نواز این اے 110 کے لیے بھی امیدوار تھے لیکن انہیں صرف پی پی 110 کا ٹکٹ دیا گیا جبکہ انکے مقابلے میں پی ٹی آئی کے خیال احمد ہیں ۔پی پی 111 میں سابق ایم پی خواجہ اسلام احمد ن لیگ کی ٹکٹ کے لیے پر امید تھے لیکن سابق وزیر اعظم نواز شریف کی خواہش پر ٹکٹ فاروق خان کے بھتیجے اسرار احمد منے خان کو دیا گیا جس پر سابقہ ایم پی اے خواجہ اسلام نے آزاد امیدوار کی اہمیت سے بالٹی کے نشان پر انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا جبکہ پی ٹی آئی میں بھی صورتحال مختلف نہ رہی ۔2013 میں صوبائی اسمبلی کی نشت پر پنجاب بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے نجم الحسین طوطے کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ نہ دی جبکہ حال میں ہی پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے شکیل شاہد کو ٹکٹ دے دیا گیا جس پر نجم الحسین طوطے نے انتخابی نشان طوطے پر آزاد حثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ۔این اے 108 میں میں سابقہ رکن قومی و صوبائی اسمبلی سمیت مئیر فیصل آباد رہنے والے شیر علی جو کہ سابق وزیر اعظم کے رشتہ دار بھی ہیں انکے بیٹے جو کہ تین دفعہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں اور وفاقی وزیر مملکت بھی رہ چکے وہ میدان میں ہیں جبکہ انکے مقابلے میں پی ٹی آئی کے فرخ حبیب ہیں جو کہ 2013 میں عابد شیر علی سے شکست کھا چکے ہیں ۔اسی حلقے میں صوبائی حلقوں پر جس میں پی پی 112 سے ن لیگ کے محمد طاہر پرویز اور پی ٹی آئی کے عدنان اختر میدان میں ہیں جبکہ پی پی 113 سے ن لیگ کی جانب سے سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور پی ٹی آئی کے میاں وارث عزیز مد مقابل ہیں ۔این اے 109 میں میاں عبد المنان جو کہ سابق ایم این اے ہیں انہیں ٹکٹ دینے پر مخالفت تو خوب ہوئی پھر ن لیگی قیادت نے فیصلہ کرتے ہوئے انہیں ٹکٹ دیا وہ 2013 کے ضمنی انتخاب میں بڑے توڑے ووٹوں سے جیتے تھے ۔این اے 109 میں انکے مد مقابل پی ٹی آئی کے فیض اللہ کموکا ہیں جہاں کانٹے کا مقابلہ متواقع ہے ۔اسی حلقے پر پی پی کے حلقہ نمبر 114 کی بات کی جائے تو کارکنوں کی مخالفت کے باوجود ن لیگ نے سابقہ ایم پی اے شیخ اعجاز کو ٹکٹ دیا جن کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے محمد لطیف نذر ہیں جبکہ پی پی 115 سے پہلی بار الیکشن میں حصہ لینے والے ن لیگ کے رانا علی عباس جبکہ پی ٹی آئی کے اسد معظم میدان میں ہیں ۔این اے 110 میں رانا افضل کی مخالفت تو بہت کی گئی لیکن پارٹی نے انہیں ٹکٹ دیا تو انکے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے دور میں اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی رہنے والے جو کہ بعد ازاں پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے انہیں ٹکٹ دیا گیا ۔اسی حلقہ میں پی پی 116 سابق ایم پی فقیر حسین ڈوگر کو ن لیگ جبکہ محبوب عالم سندھو پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں جبکہ پی پی 117 میں سے ن لیگ نے حامد رشید اور پی ٹی آئی نے حسن مسعود کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا ہے ۔
البتہ رواں سال میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو سزا دئیے جانے اور نواز شریف کی جانب سے اپنی اہلیہ کی بیماری کے باوجود خود کو نیب کے حوالہ کردینے پر دوبارہ سے مسلم لیگ ن کا گرتا ہوا گراف اوپر آیا اور دوبارہ سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے رونگٹے کھڑے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ جس کی ایک مثال چند روز قبل فیصل آباد کی دھوبی گھاٹ گراوّنڈ میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کئے جانے والے جلسے میں شریک کارکنان کی تعداد ہے۔ ایک ہی دن میں عمران خان کی جانب سے ڈویژن فیصل آباد کے دو ضلعوں میں پنڈال سجایا گیا اور دونوں ہی پاور شوء بُری طرح سے ناکامی کا شکار بنے۔ جبکہ 20 جولائی کو پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے ستیانہ روڈ سیلمی چوک میں کئے جانے والے پاور شوء میں بڑی تعداد میں لیگی کارکنان پہنچ گئے۔ اور مسلم لیگ ن کے اس پاور شوء کی قابل ذکر بات یہ رہی کہ میاں شہباز شریف اپنے بتائے ہوئے ٹائم سے پورے آٹھ گھنٹے تاخیر سے جلسہ گاہ میں پہنچے لیکن اس کے باوجود کارکنان اپنے قائد کے انتظار میں جلسہ گاہ میں براجمان رہے۔مقبولیت کے گراف کی بات کریں تو پی ٹی آئی اور ن لیگ کے امیدواروں میں سے مقبول امیدوار ن لیگ کے ہیں جبکہ ان دونوں جماعتوں کے امیدواروں کے درمیان ہر حلقے میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے ۔جبکہ فیصل آباد کے ووٹرز اس الیکشن پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں کچھ تو تبدیلی کے خواہاں ہونے کے نعرے ساتھ پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہے ہیں جبکہ کچھ تو نون لیگ کو ہی دوبارہ آزمانہ چاہتے ہیں
]]>
519
لاہور سے خواتین امیدوار https://reportingelections.org/2018/07/urdu-women-candiadtes-of-lhr/ https://reportingelections.org/2018/07/urdu-women-candiadtes-of-lhr/#comments Fri, 20 Jul 2018 16:01:16 +0000 https://reportingelections.org/?p=499
CLICK HERE FOR ENGLISH VERSION

لاہور سے خواتین امیدوار

لاہور:(شیراز حسنات سے)

ہم کسی سے نہیں کم،،،پاکستان میں دوسرے شعبوں کی طرح سیاست میں بھی صنف نازک آگے آنے لگیں،دوہزاراٹھارہ کے الیکشن میں کئی خواتین جنرل سیٹوں پربھی میدان میں اتریں ہیں.پاکستانی خواتین ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں،،اب سیاست میں بھی خواتین کی نمائندگی بڑھنے لگی ہے،ماضی میں یہ تعداد انتہائی کم تھی ،لاہور میں دوہزار دوسےاب تک صرف تین خواتین بیگم کلثوم نواز،ثمینہ خالد گھرکی اورشازیہ مبشرہی جنرل سیٹ پرانتخاب لڑ کر ایوان تک پہنچ پائیں۔ الیکشن قوانین کے تحت سیاسی جماعتیں اپنے جاری کردہ مجموعی ٹکٹوں کا پانچ فیصد حصہ خواتین کو دینے کی پابند ہیں اور اگر ایسا نہیں کرتے ہیں تو انکی جماعت کی رجسٹریشن کینسل ہو سکتی ہے۔

دوہزاراٹھارہ کے الیکشن میں لاہو رکے قومی اسمبلی کے چودہ حلقوں میں بارہ خواتین بھی عام سیٹ پرقسمت آزمائی کررہی ہیں،ان میں آٹھ پارٹیوں کے ٹکٹ اور چار آزادانہ الیکشن لڑیں گی۔

پاکستان تحریک انصاف نے صرف ایک خاتون امیدوار یاسمین راشد کو این اے 125 سے ٹکٹ جاری کیاجبکہ جماعت اسلامی نے بھی صرف انیلہ محمود کو این اے 134 کی جنرل نشست سےٹکٹ جاری کیا۔تحریک لبیک کی سمیرا نورین این اے 124 سے اور میمونہ خالد این اے 125 سےامیدوار ہیں،اسی طرح پاک سرزمین پارٹی نے بھی لاہور سے سمیعہ ناز کو این اے 125 سے ٹکٹ جاری کیا ہے۔ آزاد امیدواروں میں این اے 125 سے ریحانہ احمد، این اے 127 سے مسرت جمشید چیمہ، این اے 129 سے فرزانہ بٹ اوراین اے 134سے شازیہ مبشراقبال این اے کی نشستوں پر قسمت آزمائی کریں گی۔ نیشنل پارٹی نے بھی کشور بانو کو این اے 129 سے ٹکٹ جاری کیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ کی زیبا احسان این اے 131 سے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ثمینہ خالد گھرکی این اے132 سے امیدوار ہوں گی۔

مسلم لیگ نواز نے این اے 127 سے اور پی پی 173 سے مریم نواز کو پارٹی ٹکٹ جاری کی تھے مگر احتساب عدالت سے انھیں 8 سال قید ہوئی جسکے باعث وہ نا اہل ہو گئیں اور پارٹی ٹکٹ کسی خاتون امیدوار کی بجائے پارٹی نے مرد امیدواروں کو یہ ٹکٹ جاری کر دیے
لاہور میں صوبائی اسمبلی کی 30 نشستوں پر 15خواتین قسمت آزمائی کر ہی ہیں جن میں 4آزاد جبکہ باقی اپنی پارٹیوں کے انتخابی نشانات پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔

آزاد الیکشن لڑنی والی خواتین میں پی پی 153 سے روبینہ سلہری نور، پی پی 156 سے روبینہ کوثر، پی پی 158سے حناء پرویز بٹ اور پی پی 166سے خدیجہ حسن شامل ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے تین خواتین کو لاہور میں صوبائی اسمبلی کی نشتسوں پر اپنا امیدارو نازمزد کیا جن میں پی پی 144 سے زیب انساء، پی پی 146 سے نوارین سلیم اور پی پی 173 سے روبینہ سہیل بٹ شامل ہیں۔ پاک سر زمین پارٹی نے پی پی 150 سے ماورا کھر جبکہ اللہ اکبر تحریک نے پی پی 149 سے سائرہ بانو اور پی پی 151 سے سیدہ طاہرہ شیرازی کو ٹکٹ جاری کیے۔ تحریک لبیک نے پی پی 164 سے مریم اظہر، ایم ایم اے نے پی پی 167 سے زرافشاں فرحین، آل پاکستان مسلم لیگ نے پی پی 167 سے سمیرا بی بی، نیشنل پارٹی نے پی پی 169 سے نوبا آصف اور عوامی پارٹی پاکستان نے پی پی 171 سے نسرین بی بی کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔

این اے 125سے پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹریاسمین راشد، خواتین کی کم نمائندگی کی وجہ ان کی معاشی مجبوری کو قراردیتی ہیں ڈاکٹر یاسمین راشدکہتی ہیں کہ اس دفعہ ٹرینڈ بدلا ہے،،بہت سی خواتین عام نشست پر آئی ہیں،،لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ معاشی طور پر خواتین مردوں پر منحصر ہوتی ہیں اور خود سے سپورٹ نہیں کر پاتیں الیکشن میں اتنا پیسہ لگانے کو اور ایسی صورت میں گھر یا خاندان سپورٹ نہ کرے تو کیسے الیکشن لڑے گی

این اے 134 سے متحدہ مجلس عمل کی امیدوار انیلہ محمود کہتی ہیں کہ انھیں اپنی جیت ک ایقین ہے اور انکے خاوند اور دیگر اہلخانہ بھی الیکیشن کمپین میں انکی مدد کر رہے ہیںاور وہجہاں بھی جاتی ہیں لوگ انکو بطور خاتون ایک اچھا رسپونس دیتے ہیں اور انکی بات توجہ سے سنتے ہیں۔

شہری کہتے ہیں کہ موجودہ دورمیں صنف کی اہمیت نہیں ،معاشرہ باشعورہوچکا ،اب امیدوار کا مضبوط ہونا ضروری ہے عوام کہتے ہیں کہ وہ زمانہ گیا جب خواتین کو ووٹ دینے سے گریز کیا جاتا تھا اب عوام با شعور ہیں ،وہ صنف نازک کو اہمیت بھی دیتے ہیں اور ذمہ دار بھی سمجھتے ہیں

محمد خرم شہری کہتے ہیں کہ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے لوگ خواتین کو بھی ووٹ دیتے ہیں اور وہ جیتتی بھی ہں لیکن ہاں پہلے کم تھا خواتین کا ایسے سامنے آنا اب تھوڑا زیادہ ہو گیا ہےایک اور شہری امہ کلثوم کہتی ہیں اب سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگ کافی باشعور ہو گئے ہیں اب فرق نہیں پڑتا کہ خاتوں ہے امیدوار یامرد،،لوگ ووٹ دیں گے

 

]]>
https://reportingelections.org/2018/07/urdu-women-candiadtes-of-lhr/feed/ 1 499
کروڑوں کی انتخابی مہم۔ https://reportingelections.org/2018/07/urdu-billion-rupees-election-2018-campaign/ Thu, 19 Jul 2018 16:01:53 +0000 https://reportingelections.org/?p=502
CLICK HERE FOR ENGLISH VERSION

کروڑوں کی انتخابی مہم

لاہور:(فاطمہ علی سے)

دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کا بخار اس وقت سبھی کو اپنی لپیٹ میں لئیے ہوئے ہے۔ ٹی وی لگاؤ تو پیڈ کانٹینٹ دیکھو، خبروں میں سیاسی پارٹیوں کے لیڈران ایک دوسرے پر کیا کیچڑ اچھال رہے ہیں، کس کا پلڑا پری الیکشن سروے میں بھاری ہے کس کا نہیں ، کس کو عدالتوں سے اپنے اپنے کیسز کی سماعت انتخابات کے بعد سنے جانے کی اجازت ملی ہے کس کو نہیں غرض کہ چاروں طرف انتخابی رنگ اپنے عروج پر ہے۔ لاہور کی سڑکیں بھی کسی رنگین کینوس کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔ درخت ، کھمبے ، دیواریں ،برج سبھی سیاسی پارٹیوں کے اشتہاری بینرز، فلیکس اور سٹکروں سے رنگین ہوئے پڑے ہیں۔ جلسے ، کارنر میٹنگز اور ان میں کھابے سب چل رہا ہے۔ یہ سب دیکھ کر کوئی بھی میرے جیسا انسان یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ گیم چند ہزاروں یا لاکھوں کی نہیں بلکہ کروڑوں کی ہے تو پھر الیکشن کمشن آف پاکستان کو یہ سب کیوں نظر نہیں آرہا؟ کیا ان کا ضابطہ اخلاق بھی صرف کاغذوں کی حد تک ہے یا ہم ان سے کسی ایکشن کی توقع کر سکتے ہیں جس میں بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کوانتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دیا جاسکے؟

الیکشن کمشن آف پاکستان کےضابطہ اخلاق کے مطابق ایک امیدوار برائے قومی اسمبلی اپنی انتخابی مہم پر چالیس لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلی کے لئے بیس لاکھ روپے تک خرچ کر سکتا ہے۔ اب ہوتا کچھ یوں ہے کہ امیدوار خود اپنی انتخابی مہم کے لئے تو رقم خرچ کرتا ہے مگر اس کے حمایتی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے ، وہ بھی جیب کھول کر اشتہاروں کی شکل میں ان کو مکھن لگاتے ہیں تاکہ وقت آنے پر جیتنے والے سے اپنا الو سیدھا کروا سکیں۔ میرا خیال تھا کہ یہ جو ‘منجانب’ ہے ان کا خرچہ کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنتا اسی لئے انتخابی امیدوار الیکشن کمشن سے بچ نکلتا ہے مگر میں غلط تھی۔ پاکستان میں انتخابی عمل کو مانیٹر کرنے والے ادارے پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ امیدوار خود یا اس کا کوئی سپورٹر مہم پر پیسہ خرچ کرے ، اس کی حد بس وہی ہے جو الیکشن کمشن آف پاکستان نے مقرر کر دی ہے ( چالیس اور بیس لاکھ روپے)۔ اس سے اوپر جانے پر الیکشن کمشن چاہے تو امیدوار کو نااہل قرار دے سکتا ہے۔ مگر یہ سیاسی امیدوار بچ نکلتے ہیں کیونکہ الیکشن کمشن کے ضابطہ اخلاق میں کوئی بھی سیاسی پارٹی مجموعی طور پر انتخابی مہم پر کتنا خرچ کر سکتی ہے اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔

گذشتہ دنوں میں جو معلومات اکھٹی کی اور جو کچھ دیکھا اس کے مطابق تو یہ گیم لاکھوں کیا کروڑوں روپے کی ہے۔

رائل پارک لکشمی چوک میں درجنوں پرنٹنگ پریس ہیں جو گذشتہ تین ہفتوں سے انتخابی مہم کی چھپائی کا کام کر رہے ہیں۔ یہاں جتنے پریس مالکان سے بات ہوئی ان کے مطابق اس بار انتخابات کا کام دو ہزار تیرہ کے انتخابات کی نسبت ذراکم ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ کہ الیکشن کمشن آف پاکستان نے فلیکس اور پوسٹرز وغیرہ کا سائز مقرر کر دیا دو بائی تین ۔ دوسرا یکم جولائی تک امیدواروں کے لئے ایک غیر یقینی صورتحال تھی کہ انہیں ٹکٹ ملے گی بھی یا نہیں۔ غلام حسین کہتا ہے کہ اس بار کام کم ہے ، ” پہلے فلیکس بنانے والی مشینیں صرف شہر میں ہوتی تھیں مگر اب دیہاتوں میں بھی لگ گئیں جس کی وجہ سے چھوٹے علاقوں کاکام یہاں نہیں آتا ۔” حسین کہتا ہے کہ ایک امیدوار ہزاروں کی تعداد میں فلیکس چھپواتا ہے دس ہزار فلیکس اسے پڑتا ہے ساٹھ ہزار روپے میں اور وہ خود لاکھوں کی تعداد میں فلیکس چھاپ چکا ہے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی سڑکوں پر چلتی یہ بڑی بڑی گاڑیاں جن پر مختلف پارٹیوں کے ‘ہمیں ووٹ دو ‘کی دہائی والے پوسٹرز لگے ہیں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ گاڑیاں امیدوار کی ذاتی ہیں؟ جی نہیں یہ گاڑیاں ہیں کرائے کی۔ نیاز احمد جو گاڑیاں کرائے پر دینے کا کاروبار کرتے ہیں ان کی بات سن کر تو دل کیا انتخابات کا بائیکاٹ کر دوں۔ نیاز نے بتایا کہ انتخابات کے دنوں میں زیادہ تر لینڈ کروزر اور ویگو ڈالا( جس میں سکیورٹی گارڈ بیٹھتے ہیں) کرائے پر لیا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ تو ان میں سے ایک گاڑی کا کرایہ تیں ،ساڑھے تین لاکھ روپے ماہانہ تھا مگر اب جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں گاڑیوں کا کرایہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اب ایک لینڈ کروزر یا ویگو کا کرایہ ہے ماہانہ ساڑھے چھ لاکھ روپےاور ایک امیدوار کم سے کم دو گاڑیاں تو ضرور کرائے پر لے رہا ہے۔اور زیادہ سے زیادہ پانچ سے دس گاڑیاں۔ اب کیا کریں ہمارے لیڈران کی یہ نفسیات ہے کہ جب تک قافلے میں ان کے آگے پیچھے بڑی گاڑیاں نہ چل رہی ہوں انہیں اپنی اہمیت کا خود بھی اندازہ نہیں ہوتا۔

اب آگے چلئیے اور یہ سنئیے۔ ٹی وی آن کریں تو کبھی مسلم لیگ ن پنجاب کا موازنہ خیبر پختونخواہ سے کرتی دکھائی دیتی ہے تو کبھی پاکستان تحریک انصاف کے پی کے کو پنجاب سے بہتر گردانتی ہے اسی طرح پیپلز پارٹی بھی سندھ میں اپنی بہترین کارکردگی کے جھنڈے گاڑتی ہے۔حیرت ہے پاکستان کی بات کوئی نہیں کرتا ۔ خیر یہ پیڈ کانٹینٹ ہے جو تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ٹی وی چینلز کا پیٹ بھر رہا ہے۔ کچھ چینلز کو تو یہ اشتہار ڈائٹ فوڈ کی طرح دیے جارہے ہیں، ایکسپریس نیوز کے مارکیٹنگ افسر آغا طاہر کہتے ہیں کہ ٹائر ٹو کے چینلز کوان اشتہاروں کے پیک آورز یا آف پیک آورز دونوں میں کم ہی ریٹ دیا جا رہا ہے مگر بڑے اور مشہور چینلز جو ایک برینڈ بن چکے ہیں وہ پیک آوورز میں ایک منٹ کے پیڈ کانٹینٹ کو چلانےکے ڈیڑ ھ سے دو لاکھ روپے لے رہے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمشن کو یہ سب کیوں دکھائی نہیں دیتا کہ یہ انتخابی مہم کیا چالیس یا بیس لاکھ روپے کے مقرر کردہ ضابطہ اخلاق کے اندر ہے؟

پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے لئے بھی یہ صورتحال بڑی تشویش ناک ہے۔ ان کے خیال میں الیکشن کمشن آف پاکستان کو انتخابی مہم پر ہونے والے پارٹی اخراجات پر کڑی نظر رکھنی چاہئیے اور خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہئیے۔ محبوب کا خیال ہے ” ہر امیدوار اپنی انتخابی مہم پر کروڑوں لگا رہا ہے جب وہ اسمبلی میں جائے گا تو وہاں سے وہ اپنے یہ کروڑوں پورے گا اور صرف یہ ہی نہیں، آئیندہ آنے والے انتخابات کا خرچہ بھی اسی اسمبلی میں بیٹھ کر جوڑے گا۔ اوریہاں سے شروع ہوتی ہے بنیادی کرپشن۔” ان کے خیال میں ابھی بھی وقت ہے الیکشن کمشن انتخابی امیدواروں سے ان کی مہم کے اخراجات پر خرچ ہونے والی ایک ایک پائی کا حساب لے تاکہ آئیندہ ایسی فضول خرچی پر قابو پایا جاسکے۔

]]>
502
انتخابات میں جیپ کی اہمیت بڑھ گئ https://reportingelections.org/2018/07/urdu-jeep-as-an-election-symbol/ Thu, 19 Jul 2018 15:43:50 +0000 https://reportingelections.org/?p=496
CLICK HERE FOR ENGLISH VERSION

انتخابات میں جیپ کی اہمیت بڑھ گئ

لاہور:(شیراز حسنات سے)

اس وقت ملک بھر میں جیب کا انتخابی نشان موضوع بحث بنا ہو ا ہے۔ جب سے مسلم لیگ نواز کے منحرف رہنما چوہدری نثار نے بطور آزاد امیدوار جیب کا انتخابی نشان لیا اس کو الیکشن کمیشن سے الاٹ کروانے والوں کی تعداد یکدم سے بڑھ گئی اور یہ نشان میڈیا میں زیر بحث آ گیا۔ عام تاثر یہی لیا گیا کہ جو بھی امیدوار جیب کے انتخابی نشان پر سوار ہو کر الیکشن ریس میں حصہ لے گا وہ شاید آسانی سے جیت جائے اور تو اور مسلم لیگ نواز سے منحرف دیگر رہنماوں اور ٹکٹ نا ملنے والوں کی اکثریت نے بھی اسی نشان کو ترجیح دی اور مید تثار یہ ملنے لگ گیا کہ شاید جیت کے بعد یہجیب پر سوار سارا ہم خیال گروپ ایک ہو جائے گا اور مسلم لیگ نواز کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں نے تو جیب کے نشان کو اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ طور پر حمایت یافتہ امیدوراوں کا نشان بھی قرار دے دیا اور اسکو پاکستان آرمی کی جیب کہا جانے لگا جسے پاک فوج کے ترجمان نے باقاعدہ طور پر پریس کانفرنس میں تردید کی تھی اور یہ کہا پاک آرمی کی جیب کا رنگ یہ نہیں ہے۔ اور تو اور جب جیب کے نشان کی مانگ بڑھی تو چوہدری نثار کو بھی اسکی وضاحت کرنے پڑ گئی کہ انھوں نے کوئی ہم خیال گروپ نہیں بنا رکھا اور یہ نشان انھوں نے خود اپی مرضی سے لیا تھا اور نا ہی انھوں نے کسی اور کو یہ نشان لینے کا کہا اور نا ہی انھوں نے کوئی الگ گروپ بنایا ہے اور ان سب باتوں کو مفروضہ قرار دیا۔ متعدد جگہوں سے ایسی اطلاعات بھی آئیں کہ جیب کے انتخابی نشان کو الاٹ کروانے کیلیے کچھ حلقوں میں ایک سے زائد امیدواروں نے ریٹرنگ افسران کو درخواستیں دیں اور اسی صورت میں ٹاس کرکے ایک کو جیب اور دوسرے کو کچھ اور نشان الٹ کیے گئے۔ ان میں لاہور کا حلقہ این اے 132 بھی شامل ہے جیاں ٹاس کرنا پڑ گیا۔۔۔۔ قسمت کی دیوی محمد رمضان پر مہربان رہی جواب جیپ کا نشان پر ووٹروں کو رام کریں گے۔

لاہورمیں قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 30 سیٹوں پر متعدد حلقوں کے امیدوراوں نے جیب کا نشان الٹ کروایا، اس میں قومی اسمبلی کے پانچ جبکہ صوبائی اسمبلی کے چھبیس امیدواروں نے جیپ کے نشان الاٹ کروایا۔
صوبائی دارلحکومت میں قومی اورصوباٰئی حلقوں میں 32 امیدواراسی نشان پر میدان میں اتریں گے لاہور سے ن لیگ کے باغی رہنما زعیم قادری این اے 125 اور تجمل حسین کااین اے 129 میں انتخابی نشان جیپ ہی ہوگاجبکہ بقیہ امیداروں میں این اے 128 سے محمد ناظم، این اے 131 سے ندیم احمد، این اے 132 سےمحمد رمضان اور این اے 136 سے سردار کامل عمر شامل ہیں۔

صوبائی اسمبلی کے 30 حلقوں میں 26 امیدواروں کوجیپ کا نشان بھایا۔ صوبائی اسمبلی کےحلقہ پی پی 144 میں آزاد امیدوار محمد نوید پی پی 145 میں انعام اللہ خان پی پی 146 سے میاں سلمان شعیب پی پی 148سے علی عدنان پی پی 149 میں آجاسم شریف پی پی 150 محمد اکرم 151 سےحیدر عباس 152 سے سعید احمد خان 153 سے علاوالدین ۔154 سے محمد وحید گل 155سے میاں عابد علی 156 سے محمد زبیر 157سے سکندر علی شاہ 158 سےمیاں سلیم رضا 159 سے میاں نیم میر 160 سے سعد فرخ 161 سے علی عرفان 162 سے معراج حسین 163 سے اشرف مسیح 164سے غلام محمد 165 سے ناصر جاوید ڈوگر 166 سے محمد ادریس 168 سے محمد شہباز 171 سے رانا بختیار احمد 172سے شہزاد نذیر جیپ کے نشان پر انتخابات لڑیں گے۔

جیب کے نشان پر انتخاب لڑنے والے امیدوار اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں کچھ کے مطابق الیکشن کمیشن نے جب امیدوار کو اس سلسلے میں قانونی طور پر یہ حق دیا ہے تو وہ کیوں نا اس سے فائدہ اٹھائیں اور جیب ایک چھا نشان ہے اس لیے انھوں نے اس کو ترجیح بنیادوں پر لینے کا فیصلہ کیا۔ کچھ امیدوارں کے مطابق انتخابی مہم عام طور پر جیپوں پر ہی کی جاتی ہے لہذا انھوں نے اس نشان کو اسی لیے لینے کو ترجیح دی۔مسلم لیگ نواز سے منحرف ایک امیدوار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ چونکہ چوہدری نثار یہ نشان لیا تو اسی لیے باقی منحرف رہنماوں نے بھی اسی نشان کو ترجیح دی تاکہ مستقبل میں کامیاب ہونے والےآزاد امیدواروں کو ہم خیال گروپ بنانے میں آسانی ہو۔

شہریوں کی جانب سے بھی ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے کچھ کے مطابق جیب والے انتخابی نشان کے حامل امیدواروں کا تعقلق یا تو مسلم لیگ نواز کے منحرف حلقوں سے ہے یا انھیں اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے۔ کچھ شہریوں کے مطابق اس نشان کے حامل امیدواروں کو اس سے فائدہ بھی ہو گا اور نقصن بھی جبکہ کچھ شہریوں نے جیب کے نشان کو عام انتخابی نشان قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقابل صرف پارٹیوں کے انتخابی نشان رکھنے والے امیدورں میں ہے اور یہ صرف قیاس آریائیاں ہیں۔

]]>
496
رائے دہندگی اور سروے : بہترین عمل https://reportingelections.org/2018/06/urdu-opinion-polling-and-surveys-best-practices/ Fri, 22 Jun 2018 08:37:20 +0000 https://reportingelections.org/?p=492
CLICK HERE FOR URDU VERSION

رائے دہندگی اور سروے : بہترین عمل

By Reporting Elections:

اکثر صحافیوں کو انتخابات کے دنوں میں سڑکوں پر لوگوں کا غیر رسمی طور پر سروے یا واکس پاپ کرتے دیکھا گیا ہے جو کے ووٹر سے رائے لیتے ہیں۔ یہ کر نا آسان ہے اور یہ ر نگین و دلچسپ مواد ، پرنٹ یا ویب سائٹ پر نشر کرنے کے لیے فراہم ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کی رپورٹس کم از کم صحیح معلومات فراہم کرتی ہیں کہ ووٹروں کی بڑی تعداد کیا محسوس کرتی ہے ، چاہے ہم ایک خاص ا نتخابی حلقہ یا پورے ملک پر غور کر لیں ۔ یہی وجہ ہے کے سڑکوں پر عوامی رائے عامہ کے انداز کی رپوٹس تمام ووٹرز کا نمونہ فراہم نہیں کرتیں۔ وہ جگہ ، وقت اور حالات کے حوالے سے مختلف نتائج کی حامل ہوتی ہیں ۔
ایک سروے کرنے کے لیے جو دراصل ووٹروں کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتا ہے ، ایسا کر نے کے لیے صحافیوں کو مستند اور آ زمائی ہوئی تکنیک کا استعمال کرنا چاہیے۔

جن معلومات اور رہنما اصولوں پر عمل ۲۰۱۷ سے کیا جا ر ہا ہے۔ اس کے حوالے سے والٹر کرونکائٹ سکول آف جرنلز م اور میڈیا فاوٗنڈیشن ۳۶۰ کی جانب سے لاہور ،اسلام آباد اور کراچی میں منعقدہ ور ک شاپ میں تعلیم دی گئی تھی۔ جب کے ۲۰۱۷ کے موسم خزاں میں والٹر کرونکائٹ سکول آف جرنلز م میں سیا سی ابلاغیاتی جماعت کو پڑھایا گیا۔

تاریخی طور پر ، دنیا میں سب سے اعلٰی معیار کی پولنگ تنظیموں کی کارکردگی متعینہ وقت میں مقررکردہ ہدف کو مکمل کرنے کے حوالے سے بہترین رہی ہے جس میں ووٹر کی رائے اور ترجیحات کو نمایا کرنا شامل ہے ۔ اس موقع پر یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ووٹرز ، امیدواروں اور اس کی پالیسیوں کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔ جبکہ اس طرح کا پیشہ ورانہ طرز عمل جو انتخابات کی کوریج اور سروے میں اپنایا جاتا ہے اسے وسیع پیمانے پر مستند اور درست مانا جاتا ہے۔

سیپمل کیسے کام کرتے ہیں
تقریباً ہزار لوگوں کے رائے سے اس بات کا پتہ لگایا جا سکتا ہے کے قومی آبادی کی سوچ کیسی ہے۔ زیادہ تر ایسے طریقہ کار سے عوامی رائے کو زیادہ سے زیادہ جانے کی کو شش کی جاسکتی ہے۔اسی لیے انتخابات میں قومی رائے جانچنے کے لیے ہزار لوگوں کی رائے لی جاتی ہے اور اس سے رائے کے بارے میں اندازہ بھی آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔
چونکہ راہ چلتے آدمی کے حوالے سے کیا گیا عوامی سروے سنجیدہ نہیں لیا جا سکتا ۔ سو ا یسی لیے عوام کی حقائق سے قریب ترین رائے جانچنے کے لیے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق متفرق خصوصیات کی حامل کثیر تعداد کا غیر متوقع سروے زیادہ تر آبادی کی رائے کی نمائندگی کرتاہے۔
دیہی علاقوں میں تکنیکی سہولیات جیسے ٹیلیفون اور کمپیوٹر کی عدم دستیابی کی وجہ سے عوامی رائے حاصل کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔ لیکن ہمیں ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لاتے ہوئے حقیقی عوامی رائے کو منظر عام پر لانا ہوگا۔

غلطیوں کی گنجائش کو سمجھنا
تقریباً ہزار افراد کے سروے کے لیے ۳ فیصد کی کمی یا زیادتی کی گنجائش عام ہوتی ہے۔ سو بنیادی طور پہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نتائج میں ۳ فیصد کی کمی بیشی کسی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔
لہٰذا عوامی سروے کے مطابق امیدوار سمتھ نے ۴۸ فیصد اور جونز نے ۴۶ فیصد نمائندگی حاصل کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی طور پر امیدوار سمتھ کا زیادہ سے زیادہ ۵۱فیصد کم سے کم ۴۵ جبکہ جونز کا زیادہ سے زیادہ ۴۹ فیصدکم سے کم ۴۳ فیصد عوامی نمائندگی کا تناسب ہے۔جیسے کہ سروے یہ بتاتا ہے کہ ۴۸فیصد سے ۴۶ فیصد در حقیقت۵۱ فیصد سے ۴۳ فیصد ہوتا ہے۔
امیدوارں کی غلطی سے زیادہ سنگین غلطی ایک غلط سروے کرنا ہوتا ہے۔ اس کا قائدہ یہ ہے کہ امیدوار کی ووٹوں کے حوالے سے غلطی کے نسبتً نتاج پر زیادہ اثر ڈالتا ہے۔ایک عوامی سروے جس میں غلطی کی گنجائش کا تناسب ۳ فیصد کمی یا زیادتی کا ہو سکتا ہے ۔ اس میں وہی امیدوار پر اعتماد ہوگا جس کے پاس ۶ فیصد سے زاہد نمائندگی تناسب ہوگا۔

]]>
492
پنجاب یونیورسٹی کے آئی ۔سی۔ایس ڈپاٹمنٹ نے میڈیا اور سیاست کا کورس مکمل لیا https://reportingelections.org/2018/06/urdu-institute-of-communication-studies-at-pu-completes-media-politics-course/ Thu, 21 Jun 2018 08:18:28 +0000 https://reportingelections.org/?p=490
اسے انگلش میں پڑھیں

پنجاب یونیورسٹی کے آئی ۔سی۔ایس ڈپاٹمنٹ نے میڈیا اور سیاست کا کورس مکمل لیا

نویداقبال چودری:
میں نے میڈیا اور سیاست کا کورس ایم ۔اے ابلاغیاتی مطالعہ (صبح اور دوپہر کے بیج) کو موسم سرما ۲۰۱۷ سے ۱۸ کے سمیسٹر میں انسٹیٹوٹ آف کمیونیکیشن، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پڑھایا۔
صبح اور دوپہر کے بیجوں کی طلب علموں کی کل تعداد ۱۳۰ تھی ۔ اس کورس کا آغاز اکتوبر ۲۰۱۷ کو ہوا اور مارچ ۲۰۱۸ کو اسے مکمل کر لیا گیا۔ اس کو رس کے نصاب کو دو اہم حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا جو کہ یہ ہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ اور انتخابی رپورٹنگ۔
مڈ ٹرم امتحان تک طلباء کو سیاسی ، انتخابی اور آئینِ پاکستان کی تاریخ کے بارے میں پڑھایا گیا ۔ طلباء کا پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کے ادوار کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے اسائنمینٹس دی گئیں۔ جبکہ تنقیدی حوالے سے کلاس میں بحث و مباحثہ کا اہتمام کیا گیا

بعدازاں مڈ ٹرم امتحان میں طلبا ء کو پاکستان میں جمہوریت کی منتقلی اور مضبوطی کے عمل میں انتخابی رپورٹنگ اور میڈیا کے کردار کے بارے میں بتایا گیا ۔پھر انھیں مختلف اسائنمینٹس دی گئیں جو انتخابی رپورٹنگ، نگرانی اور تشخیص کے بارے میں تھیں ۔
اس کورس کا مقصد طالب علموں کو سیاسی تاریخ اور پاکستان کے انتخابی نظام کے ساتھ واقف کروانا اور ساتھ ہی انتخابات میں رپورٹنگ میں مہارت حاصل کروانا ہے۔ جیسا کہ کورس طرزعمل کو پیش نظر رکھتے ہوئے طلبا ء کو و مباحثہ کے سیشن اور کلاس روم میں نصاب کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ مصروف رکھا گیا ہے ۔طالب علموں کو ہینڈآؤٹ ،تحقیقی مسودات ، کتابیں اور اہم ویب سائٹ جو انتخابی رپورٹنگ کے متعلق فراہم کی گئیں ہیں۔یہ کورس بہت دلچسپ اور حوصلہ افزا ہے ، میں اس کلاس کی کارکردگی سے مطمئن ہوں۔

مندرجہ ذیل نصاب ، مطالعہ کی منصوبہ بندی اور امتحان کے طریقہ کار کا جائزہ۔

کورس کا تعارف:
یہ کورس میڈیا اور سیاست کے درمیان تعلقات پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔یہ جمہوریت کے عمل کارکردگی اور ریاست کے سیاسی معاملات کے عمل میں میڈیا کے کردار پر بحث کرنے پرزور دیتا ہے۔ جبکہ طلباء کو سیاسی تاریخ اور پاکستان کے مسائل سے آگاہ کرنے پر اصرار کرتا ہے اور انھیں صحافی کے طور پر انتخابی عمل مسائل اور تنازعات کے بارے میں تربیت دینے کا مقصد رکھتا ہے۔

کورس کے مقاصد:
طلباء کو سیاسی ڈھانچے ، ریاستی اداروں ، تاریخ اور معاشی مسائل کے ساتھ واقف کروانا۔
پاکستان میں جمہوریت کے عمل ، رکاوٹیں اور کار گردگی پر بحث کرنے کے لیے۔
یہ معلوم کرنے کے لیے کہ بین الاقوامی سیاسی صورتحال پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کو کیسے متاثر کرتی ہے۔
انتخابی معاملات ،عمل،نتائج کی شفافیت اور پاکستان کی حکومتی قیامِ عمل کے لیئے طلباء کو ترتیب دینے کے لیے۔

تدریسی نتائج:
اس کورس کی تکمیل پر طلباء اہل ہو جائیں گے۔
دنیا بھر کے مختلف سیاسی نظام اور ان نظاموں کے درمیان جمہوریت کی حیثیت کو سمجھنے کے لیے۔
مختلف ریاستی اداروں ، طرزِ جمہورت ، گورنمنٹ کے مشکلات اور سیاسی عدم استحکام کے مسائل کو سمجھنے کے لیے ۔
انتخابی ڈھانچے، قوانین اور پاکستان کے انتخابی عمل کو سمجھنے اور جانچ کرنے کے لیے ۔
پاکستان میں جمہورت اور اقدار کو مضبوط بنانے ، نگرانی اور تحفظ دینے پر میڈیا کے مختلف کرداروں کو تسلیم کرنے کے لیے۔
ا نتخابات کی رپورٹ کے لیے ، سیاسی مہمات کا احاطہ اور انتخابی تنازات کا تجزیہ۔

نصاب:
سیاست اور اس کے نظام میں میڈیا کا کردار
میڈیا اورجمہورت :زمہ داریاں ، رجحان اور مسائل
پاکستان میں میڈیا اور سیاست۔ تاریخی نقطہ نظر : نظریاتِ پاکستان ، دو قومی نظر یہ ،مقاصد کے حل ،پاکستان کی تخلیق ،پاکستان میں آئینی اصلاحات ، پاکستان میں جمہورت اورقوانین کو مستحکم کرنے میں میڈیا کا کردار
بین الااقومی سیاسی منظر :۱۱/۹ کے بعد ترقی ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستانی میڈیا
میڈیا اور حکومت: انتخابی عمل اور نظام،سیاسی جماعتوں کے پس منظر ،انتخابی عمل میں میڈیا کا کردار ، جمہوریت کی منتقلی اور میڈیا
میڈیا اور رائے کی تشکیل : دیہی اور شہری علاقوں میں پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کا کردار ،
سماجی تبدیلی ،سیاسی شعور ،ووٹنگ اور رائے کے ایجنٹ کے طور پر میڈیا
سروے
انتخابی مہمات
انتخابات کی رپورٹنگ
انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل کی حقیقت کی جانچ پڑتال

مطا لعہ کی منصوبہ بندی :
نومبر
پہلا ہفتہ
لیکچر فہرست
دنیا کے بڑے سیاسی نظام
جمہورت : اقسام اور خصوصیات
کلاس کی سرگرمی
سوال و جواب اور بحث
دوسرا ہفتہ
لیکچر فہرست
سیاست میں میڈیا کا کردار
میڈیا اور جمہوریت : کردار اور مسائل
کلاس کی سرگرمی
سروے کی رائے ،سوال و جواب
تیسرا ہفتہ
پاکستان میں میڈیا اور سیاست: جائزہ
بحث
چوتھا ہفتہ
پاکستان کی تاریخی:۱۹۴۷۔۲۰۱۳
سوال و جواب، کلاس پریزنٹیشن

دسمبر
پہلا ہفتہ
جمہورت اور آمریت کے ادوارمیں پاکستان کی تاریخ:سیاست میں فوج کا کردار
بحث، کلاس پریزنٹیشن
دوسرا ہفتہ
پاکستان میں آئینی ترقیات:۱۹۴۷۔۲۰۱۷
بحث، اسائنمنٹ

تیسرا ہفتہ
میڈیا قوانین اور پریس کی آزادی پاکستان میں:سیاست میں اپنا کردار ادا کرنا
سوال و جواب
چوتھا ہفتہ
سردیوں کی چھٹیاں
اسائنمنٹ

جنوری
پہلا ہفتہ
مڈٹرم امتحان
امتحانی پرچہ
دوسرا ہفتہ
پاکستان میں انتخابی نظام اور قوانین
پاکستان کا انتخابی کمیشن
صوبائی اور مقامی نظامِ حکومت
اسائنمنٹ،بحث
تیسرا ہفتہ
پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور ان کا طرز ِ سیاست
کلاس پریزنٹیشن
چوتھا ہفتہ
پاکستان میں جمہوریت کے عمل اور منتقلی میں میڈیا کا کردار
اسائنمنٹ

فروری
پہلا ہفتہ
میڈیا اور رائے کی تشکیل : دیہی اور شہری علاقوں میں پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کا کردار ،
سماجی تبدیلی ،سیاسی شعور ،ووٹنگ اور رائے کے ایجنٹ کے طور پر میڈیا
بحث
دوسرا ہفتہ
انتخابی مہم اور میڈیا
پاکستان میں انتخابی مہم میں مختلف میڈیا کی کردار
رائے سروے
تیسرا ہفتہ
انتخابات کی رپورٹنگ
پاکستان میں انتخابات کی رپورٹنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق
اسائنمنٹ
چوتھا ہفتہ
نگرانی اور حقیقت کی جانچ پڑتال کا کردار
بحث

مارچ
پہلا ہفتہ
حکومت کی تشکیل کے عمل کی اطلاع
بحث
دوسرا ہفتہ
فائنل ٹرم امتحان
امتحانی پرچہ، فائنل ٹرم کی اسائنمنٹ

]]>
490