Classroom (Urdu) – Reporting Elections Pakistan https://reportingelections.org Covering Pakistan General Election 2018 Wed, 25 Jul 2018 02:34:16 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=4.9.18 https://i0.wp.com/reportingelections.org/wp-content/uploads/2017/06/cropped-RE-Banner-Revised-2.jpg?fit=32%2C32&ssl=1 Classroom (Urdu) – Reporting Elections Pakistan https://reportingelections.org 32 32 145858212 حلقہ131 میں خواجہ سعدرفیق اور عمران خان کا انتخابی معرکہ https://reportingelections.org/2018/07/urdu-na131-imran-khan-vs-saad-rafique/ Sun, 22 Jul 2018 11:35:10 +0000 https://reportingelections.org/?p=532
CLICK HERE FOR ENGLISH VERSION

حلقہ131 میں خواجہ سعدرفیق اور عمران خان کا انتخابی معرکہ

لاہور:(احمدہما علی سے)

لاہور۔۲۵ جولائی ۲۰۱۸ کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان سمیت عالمی سیاسی ومعاشی قوتوں کی نظریں یقینی طور پرحلقہ این اے ۱۳۱ میں عمران خان بمقابلہ خواجہ سعد رفیق پر لگی ہوئی ہیں۔کیونکہ اسی حلقے سے (نیا پاکستان،تبدیلی آچکی ہے اور کرپشن سے نجات)جیسے نعرے لگانے والے عمران خان کی سیاسی بقا کا فیصلہ ہونا ہے۔نئی حلقہ بندی کے مطابق آرے بازار،نشاط کالونی،کیولری گراونڈء،محمدپورہ،والٹن روڈ،پی،اے ایف،باب پاکستان،ڈی ایچ اے،وائے بلاک،خیابان اقبال،غازی روڈ،کماہاں،رنگ روڈ، بیدیاں روڈ،ایئرپورٹ اور گرجا چوک حلقہ این اے ۱۳۱ میں شامل ہیں۔واضح رہے کہ ۲۰۱۳ میں کہلائے جانے والے حلقہ این اے ۱۲۵ کے متعدد علاقے درج بالا تفصیل میں موجود ہیں۔گذشتہ الیکشن میں خواجہ سعد رفیق نے زیادہ تر انہی علاقوں سے متوسط اور غریب ووٹرز کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے حامد خان کو ۸۴ہزار ووٹوں کے مقابلے میں ۱۲۳۰۰۰ہزار ووٹ حاصل کر کے تقریبا۳۹۰۰۰ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی۔موجودہ حلقہ این اے ۱۳۱ میں پاکستان الیکشن کمیشن کے مطابق آبادی۷۷۲۱۸۲ہے جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد۱۹۸۶۹۹،اور خواتین کی تعداد۱۶۵۵۱۴،ہے۔حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد۳۶۴۲۱۳،ہے جس کے لیے ۲۴۲ پولنگ اسٹیشن کا انتظام کیا گیا ہے۔حلقہ ۱۳۱ میں آباد مختلف برادریاں،جن میں آراہیں،گجر،شیخ اور کشمیری نمایاں ہیں ،الیکشن میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔عمران خان اور خواجہ سعد رفیق کے حوالے مشہور انتخابی حلقے میں ۴ آزاد امیدوار اور پاکستان برابری پارٹی کے سربراہ معروف گلوکار جواد احمد بھی مقابلے میں شریک ہیں۔
]]>
532
حلقہ این اے 132لاہور کی انتخابی صورتحال https://reportingelections.org/2018/07/urdu-na132-situation/ Sun, 22 Jul 2018 11:30:26 +0000 https://reportingelections.org/?p=529
CLICK HERE FOR ENGLISH VERSION

حلقہ این اے 132لاہور کی انتخابی صورتحال

لاہور:(احمدہما علی سے)

لاہور۔پاکستان مسلم لیگ(ن)کے صدرمیاں شہبازشریف نے قومی اسمبلی میں جانے کے لیے حلقہ این اے ۱۳۲ سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔۱۳ مارچ۲۰۱۸ کو مسلم لیگ (ن) کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہونے والے میاں شہباز شریف کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری محمد منشاء سے ہے جو کہ موجودہ ملکی سیاست میں دوسری بڑی سیاسی پارٹی ہے جبکہ تیسرے نمبر پر پی پی پی ثمینہ گھرکی بھی مقابلے میں شریک ہیں۔موجودہ حلقہ این اے ۱۲۳ گذشتہ انتخابات میں کہلانے والے این اے۱۳۰ اوراین اے ۱۲۹ کے اشتراک سے تشکیل دیا گیا ہے جسمیں (۸۸،۹۳،۲۰۰۲)اور ۲۰۰۸ میں گھرکی خاندان قومی اسمبلی کی نشتیں حاصل کرتا رہا ہے۔دوسری طرف میاں شہباز شریف۲۰۱۳ میں این اے ۱۲۹ سے کامیاب ہوئے تھے جسکے متعدد علاقے موجودہ حلقہ این اے ۱۳۲ میں شامل کیے گئے ہیں جو ان کے لیے سیاسی تقویت کا باعث بن سکتے ہیں۔ماضی کے مقابلے میں اب اس حلقے میں نیم مضافاتی علاقوں، جیسے برکی ہڈیارہ،پنگالی ، ہیر، جاہمن،جلو،شالیمار تحصیل برکی روڈ، بیدیاں روڈ،کاہنہ این یو قانون گو،۳کاہنہ قانون گو ،حلقہ۳۸ ٹاؤن کمیٹی اورلاہورڈسٹرکٹ کے علاوہ ڈی ایچ اے،فیز ۸،۷ اور براڈوے روڈ کے علاقے شامل کیے گئے۔جسکی وجہ سے درمیانے طبقے کے علاوہ،اشرافیہ بھی سیاسی فیصلے پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔اس حلقے کی آبادی تقریبا ۷۸۸۷۸۶ ہے۔جسمیں مرد ووٹرز کی تعداد ۱۸۹۳۹۲ ،خواتین ووٹرز ۱۲۵۷۱۲ ، اور رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ۳۱۵۱۰۴،ہے۔جبکہ پولنگ اسٹیشن کی تعداد ۲۵۲ کے قریب ہے۔سیاسی وابستگی کے ساتھ ساتھ مختلف برادریاں بھی الیکشن میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں ،جن میں نمایاں طور پر میواتی،مغل، اعوان، گجر،ارائیں،جٹ اور راجپوت قابل ذکر ہیں۔
]]>
529
رائے دہندگی اور سروے : بہترین عمل https://reportingelections.org/2018/06/urdu-opinion-polling-and-surveys-best-practices/ Fri, 22 Jun 2018 08:37:20 +0000 https://reportingelections.org/?p=492
CLICK HERE FOR URDU VERSION

رائے دہندگی اور سروے : بہترین عمل

By Reporting Elections:

اکثر صحافیوں کو انتخابات کے دنوں میں سڑکوں پر لوگوں کا غیر رسمی طور پر سروے یا واکس پاپ کرتے دیکھا گیا ہے جو کے ووٹر سے رائے لیتے ہیں۔ یہ کر نا آسان ہے اور یہ ر نگین و دلچسپ مواد ، پرنٹ یا ویب سائٹ پر نشر کرنے کے لیے فراہم ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کی رپورٹس کم از کم صحیح معلومات فراہم کرتی ہیں کہ ووٹروں کی بڑی تعداد کیا محسوس کرتی ہے ، چاہے ہم ایک خاص ا نتخابی حلقہ یا پورے ملک پر غور کر لیں ۔ یہی وجہ ہے کے سڑکوں پر عوامی رائے عامہ کے انداز کی رپوٹس تمام ووٹرز کا نمونہ فراہم نہیں کرتیں۔ وہ جگہ ، وقت اور حالات کے حوالے سے مختلف نتائج کی حامل ہوتی ہیں ۔
ایک سروے کرنے کے لیے جو دراصل ووٹروں کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتا ہے ، ایسا کر نے کے لیے صحافیوں کو مستند اور آ زمائی ہوئی تکنیک کا استعمال کرنا چاہیے۔

جن معلومات اور رہنما اصولوں پر عمل ۲۰۱۷ سے کیا جا ر ہا ہے۔ اس کے حوالے سے والٹر کرونکائٹ سکول آف جرنلز م اور میڈیا فاوٗنڈیشن ۳۶۰ کی جانب سے لاہور ،اسلام آباد اور کراچی میں منعقدہ ور ک شاپ میں تعلیم دی گئی تھی۔ جب کے ۲۰۱۷ کے موسم خزاں میں والٹر کرونکائٹ سکول آف جرنلز م میں سیا سی ابلاغیاتی جماعت کو پڑھایا گیا۔

تاریخی طور پر ، دنیا میں سب سے اعلٰی معیار کی پولنگ تنظیموں کی کارکردگی متعینہ وقت میں مقررکردہ ہدف کو مکمل کرنے کے حوالے سے بہترین رہی ہے جس میں ووٹر کی رائے اور ترجیحات کو نمایا کرنا شامل ہے ۔ اس موقع پر یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ووٹرز ، امیدواروں اور اس کی پالیسیوں کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔ جبکہ اس طرح کا پیشہ ورانہ طرز عمل جو انتخابات کی کوریج اور سروے میں اپنایا جاتا ہے اسے وسیع پیمانے پر مستند اور درست مانا جاتا ہے۔

سیپمل کیسے کام کرتے ہیں
تقریباً ہزار لوگوں کے رائے سے اس بات کا پتہ لگایا جا سکتا ہے کے قومی آبادی کی سوچ کیسی ہے۔ زیادہ تر ایسے طریقہ کار سے عوامی رائے کو زیادہ سے زیادہ جانے کی کو شش کی جاسکتی ہے۔اسی لیے انتخابات میں قومی رائے جانچنے کے لیے ہزار لوگوں کی رائے لی جاتی ہے اور اس سے رائے کے بارے میں اندازہ بھی آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔
چونکہ راہ چلتے آدمی کے حوالے سے کیا گیا عوامی سروے سنجیدہ نہیں لیا جا سکتا ۔ سو ا یسی لیے عوام کی حقائق سے قریب ترین رائے جانچنے کے لیے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق متفرق خصوصیات کی حامل کثیر تعداد کا غیر متوقع سروے زیادہ تر آبادی کی رائے کی نمائندگی کرتاہے۔
دیہی علاقوں میں تکنیکی سہولیات جیسے ٹیلیفون اور کمپیوٹر کی عدم دستیابی کی وجہ سے عوامی رائے حاصل کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔ لیکن ہمیں ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لاتے ہوئے حقیقی عوامی رائے کو منظر عام پر لانا ہوگا۔

غلطیوں کی گنجائش کو سمجھنا
تقریباً ہزار افراد کے سروے کے لیے ۳ فیصد کی کمی یا زیادتی کی گنجائش عام ہوتی ہے۔ سو بنیادی طور پہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نتائج میں ۳ فیصد کی کمی بیشی کسی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔
لہٰذا عوامی سروے کے مطابق امیدوار سمتھ نے ۴۸ فیصد اور جونز نے ۴۶ فیصد نمائندگی حاصل کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی طور پر امیدوار سمتھ کا زیادہ سے زیادہ ۵۱فیصد کم سے کم ۴۵ جبکہ جونز کا زیادہ سے زیادہ ۴۹ فیصدکم سے کم ۴۳ فیصد عوامی نمائندگی کا تناسب ہے۔جیسے کہ سروے یہ بتاتا ہے کہ ۴۸فیصد سے ۴۶ فیصد در حقیقت۵۱ فیصد سے ۴۳ فیصد ہوتا ہے۔
امیدوارں کی غلطی سے زیادہ سنگین غلطی ایک غلط سروے کرنا ہوتا ہے۔ اس کا قائدہ یہ ہے کہ امیدوار کی ووٹوں کے حوالے سے غلطی کے نسبتً نتاج پر زیادہ اثر ڈالتا ہے۔ایک عوامی سروے جس میں غلطی کی گنجائش کا تناسب ۳ فیصد کمی یا زیادتی کا ہو سکتا ہے ۔ اس میں وہی امیدوار پر اعتماد ہوگا جس کے پاس ۶ فیصد سے زاہد نمائندگی تناسب ہوگا۔

]]>
492
میڈیا، سیاست اور انتخابات کی رپورٹنگ “، کی پیشکش یو سی پی ، لاہور میں” https://reportingelections.org/2018/06/urdu-overview-of-media-politics-and-reporting-elections/ Wed, 20 Jun 2018 22:14:33 +0000 https://reportingelections.org/?p=485
اسے انگلش میں پڑھیں

میڈیا، سیاست اور انتخابات کی رپورٹنگ “، کی پیشکش یو سی پی ، لاہور میں”

عمبر مبین کے قلم سے

اس کورس کا بنیادی مقصد زرائع ابلاغ اور سیاست کے مختلف ڈھانچوں کا اشتراک کرنا ہے تاکہ مختلف ممالک کے میڈیا کےنظام اور سیاسی ڈ ھانچے کو گہرائی سے سمجھا جائے اور خاص طور پر پاکستان اور ریاستہا ئے متحدہ امریکہ کو سمجھا جائے ۔
یہ کورس انتخابات کے مختلف طول و عرض کا ا حاطہ کرے گا اور میڈیا کی رپورٹنگ کا کردار بھی بتائے گا ۔ طالب علموں کی توجہ مرکوز کرنے کے لیے انتخابات کا احاطہ کرنے میں میڈیا کا کردار ، تحقیقاتی رپورٹنگ ، رپورٹ لکھنے کی مہارت ، شوشل میڈیا  کا استعمال اور رپورٹنگ کرتے ہوئے اخلاقیات کے طریقوں کے بارے میں بتایا جائے گا۔ کیس مطالعہ ، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے اہم تجزیہ اور کچھ مطالعہ اس کورس کا لازمی حصہ ہوں گی ۔ اس کے علاوہ ، طالب علموں کے لیئے مختلف طبقاتی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے گا تاکہ کورس کی طرف ان کی تجزیاتی مہارت کو فروغ دیا جاسکے۔
ایف۔ ایم ۔ سی۔ ایس کی اسیسٹنٹ پروفیسر امبرموبین ایم ۔فل پروگرام کو پڑھا رہی ہیں۔

 

Dr. Rasheed Ahmad Khan having a discussion with PhD students about Media and Politics (Courtesy of University of Central Punjab) MPhil students at University of Central Punjab, Lahore. (Courtesy of the University of Central Punjab, Lahore) Dr. Rasheed Ahmad Khan teaching Media and Politics to PhD class at FMCS, UCP Lahore (Courtesy of University of Central Punjab)
]]>
485
یونیورسٹی آف گجرات میڈیا اور سیا ست کے کورسس کی پیشکش https://reportingelections.org/2018/06/urdu-synopsis-from-university-of-gujrat/ Tue, 19 Jun 2018 21:26:37 +0000 https://reportingelections.org/?p=479
اسے انگلش میں پڑھیں

یونیورسٹی آف گجرات میڈیا اور سیا ست کے کورسس کی پیشکش

عمیر نعیم کے قلم سے

یونیورسٹی آف گجرات نے ایم۔ فل سطح پر کورس میڈیا اور سیاست کی پیشکش کی ہے تا کہ انتخابات کو سمجھنے میں میڈیا کے کردار کی تفہیم اور علم کو بہتر بنایا جاسکے۔
زرائع ابلاغ میں غیر معمولی یا غیر جانبدار وجوہات کے لیے میڈیا کافی توجہ دیتی ہے۔ لیکن اس وجہ سے انتحابات کے زریعے حاصل کردہ سیاسی طاقت بلآخر ایک اہم خبر ہے ۔
ا بلاغیات کے نظریات کا خیال ہے کہ عوامی زندگی کے بارے میں معلومات کے بہاوٗ اور را ئے کی بات چیت میڈیا کی بنیاد ی اور اہم افعال ہیں۔زرائع ابلاغ نے ایجنڈا قائم کیے ہیں اور سنجیدہ اثرات ان لوگوں پر نہیں اثر کرتے جو لوگ سوچتے ہیں ان کے بارے میں اور کیا سوچتے ہیں۔
میڈیا فیصلہ کرتا ہے کہ کن لوگوں اور کن مسائل کو زیادہ تر کوریج ملے گی اور کون کون سے امیدواروں کی حمایت کرے گی ۔

کورس کی فہرست :

  • میڈیا اور سیاسی علم
  • سیاسی ابلاغیات کا مطالعہ
  • معاصر سیاسی سماجیات
  • ایجنڈا کی ترتیب اور ایجنڈا سازی
  • فریمنگ
  • سیاسی خبروں کے پیچھے: پس منظر اور حقائق
  • سیاسی خبروں کا انکشاف کرنا
  • سیاسی ۔ انتخابی مہمات:ماضی اور حال
  • تعاقب اور سیاسی مہمات
  • نامزد گیاں اور خبریں
  • سیاسی اشتہارات
  • صدارتی بحث

مقاصد
کورس میڈیا اور سیاست کا مواد زرائع ابلاغ کے نظام پر پاکستان اور امریکہ کی سیاسی ڈھانچے کے بارے میں گہرائی سمجھنے کے لئے زرائع ابلاغ کی سیاست اور رپورٹنگ کی مختلف محرؤکات کا احاطہ کرتا ہے۔
جمہوریت کی کامیابی کا انحصار زیادہ تر ان صحافیوں پر ہوتا ہے جو آئین کی بالادستی کے لیے کام کرتے ہیں ۔ یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ صحافیانہ نقطہ نظر کو کس طرح تبدیل کر سکتے ہیں اور حقائق اور مفروزات خبر کی صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔
یہ کورس انتخابات کے مختلف عوامل کے حوالے سے ئرپورٹنگ اور میڈیا کے کردار کا احاطہ کرتا ہے ۔ اس کورس کا بنیادی مقصد زرائع ابلاغ کے کردار کے بارے میں طالب علموں کو مجموعی تفہیم کو بہتر بنانے پر فوکس بھی کرتا ہے۔

  • انتخابات کا احاطہ
  • بنیادی تحقیقاتی رپورٹنگ کی مہارت؛
  • انٹرویو
  • حقائق کی جانچ پڑتال
  • خبروں کے زرائع پیدا کرنا

یہ کورس صحافت کو فروغ دینے کے لیے سماجی روابط کی ویب سائٹ (فیس بک ، ٹویڑ ،انسٹا گرام،سنیپ چیٹ اور دیگر علمی پلیٹ فارمز) کے اخلاقی استعمال پر مشتمل ہے۔
طالب علموں نے اپنی اسائنمنٹ میں اس انتخابی عمل میں امیدواروں کی طرف سے سوشل میدیا کیسے اور کیوں استعمال کرتے ہیں۔میدواروں ،سیاسی کارکنوں اور خاص طور پر انتہائی نچلی سطح کے منتخب عوامی نمائندوں کومقننا پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
کیس کے مطالعہ جات ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اہم تجزیات اور امریکی انتخابی نظام کی تفہیم اور علم کے لیے کچھ کتابیں اس کو رس کا لازمی حصہ ہیں۔

نتائج
میڈیا سنٹر کے سربراہ ڈاکٹر زاہد یوسف نے میڈیا اور سیاست کے لئے کورس کے مواد کو شامل کرنے کے لئے پختہ اقدامات کئے ۔ مستقبل کے منصوبوں میں بین الاقوامی پیشہ ورانہ معیارات کو پورا کرنے کے لئے مواد میں بہتری شامل ہے۔
یوسف یقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت کی کامیابی پر بنیادی طور پر صحافیوں کے ہنر جس کے تحت وہ خام معلومات کو حقائق تبدیل کرنے پر منحصر ہے۔

نصاب
میڈیا اور سیاست (ایم۔سی۔ایم۹۰۵)
شعبہ میڈیا اور ابلاغیاتِ تعلیم
انسٹکڑر: رانا امیر ندیم

مقاصد
اس جماعت میں ہم میڈیا اور سیاست کے درمیان ربط مختلف زاویوں اور طریقوں سے دیکھتے ہیں ۔

تین مقاصد: اس جماعت میں،
۱:یہ جماعت ایک عمومی ٹول بکس مہیا کرے گی جس زریعے سے سیاسی ابلاغ پر ہوئے کام دیکھا جا سکے گا اور اسی کے زریعے سے بنیادی اور سانوی زریعے سے حاصل شدہ مواد کی بنیاد پر تحقیق کا طریقہ کار طے کیا جائے گا اور تھیوری ، پریکٹیکل اور سیاست کے درمیان روابط تلاش کیے جائیں گے۔
۲:اس کورس میں وہ تمام مواد پس منظر طریقہ ہائے گا جو کے میڈیا کے تھیورئیز اور پریکٹیکل کے حوالے سے کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں ، شامل ہیں۔
۳:دوسرے الفاظ میں سکرینگ ، مطالعہ ، بحث اور مثالوں وغیرہ،وغیرہ کو حقائق کے طور پر نہیں لینا چاہے اور نہ ہی اسے اپنے معانی دینے چاہیے کیوں کے ایسا نہیں ہوتا۔

مواد
سیاسی ابلاغیات ،میڈیا اور سیاسی علم ، معاصر سیاسی سماجیات،یجنڈا کی ترتیب اور ایجنڈا سازی،فریمنگ،سیاسی خبروں کے پیچھے: پس منظر اور حقائق،سیاسی خبروں کا انکشاف کرنا،سیاسی ۔ انتخابی مہمات:ماضی اور حال،تعاقب اور سیاسی ،نامزد گیاں اور خبریں ،سیاسی اشتہارات اور صدارتی بحث شامل ہیں۔

گریڈ
براہ کرم گریڈ کے لئے اپنی توقعات نوٹ کریں :
۵۸% =A+ آپ کا کام مستقلآ اعلیٰ ہے۔
۰۸ % A = آپ کا کام مستقلآ مضبوط ہے۔
۵۷% =B آپ کا کام مناسب ہے اور معیار پر پورا اترتا ہے۔
اسینمنٹ
۰۵ % حتمی دستاویزات۔آپ اپنے منتخب کردا موضوع کی منظوری کے لئے مجھ سے ملنا پڑے گا اور موضوع پر بات کرنی پڑی گی۔
۵۲% مڈ امتحان ۔ وہ تمام مواد جو کلاس میں پڑھا جائے گا اور جو مواد آپ اپنے لئے خود چنا ہو گا اس کے با رے میں ہوگا۔
۵۱%پریزنٹیشن: موضوع کا دلیل سے اور تاریخی لحاظ سے جائزہ لیں جو میڈیا اور سیاست پر پورا اترتا ہو۔

میڈیا اور سیاست کورس کا شیڈول:
پہلا ہفتہ: کورس کا تعارف کروایا جاتا ہے۔
دوسرا ہفتہ: سیاسی ابلاغیات کا مطالعہ
تیسرا ہفتہ: میڈیا اور سیاسی علم
چوتھا ہفتہ: معاصر سیاسی سماجیات
پانچھواں ہفتہ: ایجنڈا کی ترتیب اور ایجنڈا سازی
چھٹا ہفتہ: فریمنگ
ساتواں ہفتہ: سیاسی خبروں کے پیچھے: پس منظر اور حقائق
آٹھواں ہفتہ: سیاسی خبروں کا انکشاف کرنا
نواں ہفتہ: سیاسی ۔ انتخابی مہمات:ماضی اور حال
دسواں ہفتہ: تعاقب اور سیاسی مہمات
گیارواں ہفتہ: نامزد گیاں اور خبریں
بارواں ہفتہ: سیاسی اشتہارات
تیرواں ہفتہ: صدارتی بحث

]]>
479