رائے دہندگی اور سروے : بہترین عمل

By Reporting Elections:

اکثر صحافیوں کو انتخابات کے دنوں میں سڑکوں پر لوگوں کا غیر رسمی طور پر سروے یا واکس پاپ کرتے دیکھا گیا ہے جو کے ووٹر سے رائے لیتے ہیں۔ یہ کر نا آسان ہے اور یہ ر نگین و دلچسپ مواد ، پرنٹ یا ویب سائٹ پر نشر کرنے کے لیے فراہم ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کی رپورٹس کم از کم صحیح معلومات فراہم کرتی ہیں کہ ووٹروں کی بڑی تعداد کیا محسوس کرتی ہے ، چاہے ہم ایک خاص ا نتخابی حلقہ یا پورے ملک پر غور کر لیں ۔ یہی وجہ ہے کے سڑکوں پر عوامی رائے عامہ کے انداز کی رپوٹس تمام ووٹرز کا نمونہ فراہم نہیں کرتیں۔ وہ جگہ ، وقت اور حالات کے حوالے سے مختلف نتائج کی حامل ہوتی ہیں ۔
ایک سروے کرنے کے لیے جو دراصل ووٹروں کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتا ہے ، ایسا کر نے کے لیے صحافیوں کو مستند اور آ زمائی ہوئی تکنیک کا استعمال کرنا چاہیے۔

جن معلومات اور رہنما اصولوں پر عمل ۲۰۱۷ سے کیا جا ر ہا ہے۔ اس کے حوالے سے والٹر کرونکائٹ سکول آف جرنلز م اور میڈیا فاوٗنڈیشن ۳۶۰ کی جانب سے لاہور ،اسلام آباد اور کراچی میں منعقدہ ور ک شاپ میں تعلیم دی گئی تھی۔ جب کے ۲۰۱۷ کے موسم خزاں میں والٹر کرونکائٹ سکول آف جرنلز م میں سیا سی ابلاغیاتی جماعت کو پڑھایا گیا۔

تاریخی طور پر ، دنیا میں سب سے اعلٰی معیار کی پولنگ تنظیموں کی کارکردگی متعینہ وقت میں مقررکردہ ہدف کو مکمل کرنے کے حوالے سے بہترین رہی ہے جس میں ووٹر کی رائے اور ترجیحات کو نمایا کرنا شامل ہے ۔ اس موقع پر یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ووٹرز ، امیدواروں اور اس کی پالیسیوں کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔ جبکہ اس طرح کا پیشہ ورانہ طرز عمل جو انتخابات کی کوریج اور سروے میں اپنایا جاتا ہے اسے وسیع پیمانے پر مستند اور درست مانا جاتا ہے۔

سیپمل کیسے کام کرتے ہیں
تقریباً ہزار لوگوں کے رائے سے اس بات کا پتہ لگایا جا سکتا ہے کے قومی آبادی کی سوچ کیسی ہے۔ زیادہ تر ایسے طریقہ کار سے عوامی رائے کو زیادہ سے زیادہ جانے کی کو شش کی جاسکتی ہے۔اسی لیے انتخابات میں قومی رائے جانچنے کے لیے ہزار لوگوں کی رائے لی جاتی ہے اور اس سے رائے کے بارے میں اندازہ بھی آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔
چونکہ راہ چلتے آدمی کے حوالے سے کیا گیا عوامی سروے سنجیدہ نہیں لیا جا سکتا ۔ سو ا یسی لیے عوام کی حقائق سے قریب ترین رائے جانچنے کے لیے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق متفرق خصوصیات کی حامل کثیر تعداد کا غیر متوقع سروے زیادہ تر آبادی کی رائے کی نمائندگی کرتاہے۔
دیہی علاقوں میں تکنیکی سہولیات جیسے ٹیلیفون اور کمپیوٹر کی عدم دستیابی کی وجہ سے عوامی رائے حاصل کرنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔ لیکن ہمیں ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لاتے ہوئے حقیقی عوامی رائے کو منظر عام پر لانا ہوگا۔

غلطیوں کی گنجائش کو سمجھنا
تقریباً ہزار افراد کے سروے کے لیے ۳ فیصد کی کمی یا زیادتی کی گنجائش عام ہوتی ہے۔ سو بنیادی طور پہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نتائج میں ۳ فیصد کی کمی بیشی کسی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔
لہٰذا عوامی سروے کے مطابق امیدوار سمتھ نے ۴۸ فیصد اور جونز نے ۴۶ فیصد نمائندگی حاصل کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی طور پر امیدوار سمتھ کا زیادہ سے زیادہ ۵۱فیصد کم سے کم ۴۵ جبکہ جونز کا زیادہ سے زیادہ ۴۹ فیصدکم سے کم ۴۳ فیصد عوامی نمائندگی کا تناسب ہے۔جیسے کہ سروے یہ بتاتا ہے کہ ۴۸فیصد سے ۴۶ فیصد در حقیقت۵۱ فیصد سے ۴۳ فیصد ہوتا ہے۔
امیدوارں کی غلطی سے زیادہ سنگین غلطی ایک غلط سروے کرنا ہوتا ہے۔ اس کا قائدہ یہ ہے کہ امیدوار کی ووٹوں کے حوالے سے غلطی کے نسبتً نتاج پر زیادہ اثر ڈالتا ہے۔ایک عوامی سروے جس میں غلطی کی گنجائش کا تناسب ۳ فیصد کمی یا زیادتی کا ہو سکتا ہے ۔ اس میں وہی امیدوار پر اعتماد ہوگا جس کے پاس ۶ فیصد سے زاہد نمائندگی تناسب ہوگا۔